بلوچ قومی اجتماع ” راجی مچی” اور بدلتے سیاسی حالات
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی جانب سے اتوار اٹھائیس جولائی کو گوادر میں ‘بلوچ راجی مچی‘ یا بلوچ قومی اجتماع کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔اس حوالے سے بی وائی سی کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ اجتماع ”ایک پر امن سیاسی عمل‘‘ ہے جو ”بلوچستان کے قومی وسائل کی لوٹ مار اور بلوچستان میں ہر قسم کے انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک کا حصہ ہے۔‘
اس اجتماع کے بارے میں بی وائی سی کے رہنما جاوید بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ یہ اجتماع ”کسی حکومتی فرد یا ادارے کے خلاف نہیں بلکہ انصاف کے لیے‘‘ منعقد کیا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا، ”ہم اپنی تحریک کسی کے دباؤ میں آ کر ختم نہیں کر سکتے۔جاوید بلوچ نے کہا، ”اٹھائیس جولائی کو جلسہ گوادر میں ہی منعقد ہو گا۔ اگر حکومت نے کوئی رکاوٹ نہ ڈالی، تو جلسے کے دوران ایک گملا بھی نہیں ٹوٹے گا۔ تاہم ریاستی اداروں نے اگر طاقت کا استعمال کیا تو صورت حال خراب ہو جانے کا شدید خدشہ ہو گا۔
دوسری جانب کوئٹہ میں بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے نمائندہ بصیر میڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”بلوچ یکجہتی کمیٹی اگر گوادر میں کوئی جلسہ یا احتجاج کرنا چاہتی ہے، تو اس کے لیے مقامی انتظامیہ سے قانون کے مطابق اجازت کا حصول ضروری ہے۔ بی وائی سی کو یہ اجازت لیے بغیر کوئی جلسہ یا احتجاج نہیں کرنا چاہیے۔ شاہد رند کے بقول لاپتہ افراد کی بازیابی سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کئی مطالبات پر غور کے لیے ایک حکومتی کمیٹی تو پہلے ہی سے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت لاپتہ ہو جانے والے افراد کے لواحقین کو ہر ممکن انصاف فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بی وائی سی اس سے پہلے بھی احتجاجی نوعیت کے اجتماعات اور مظاہروں کا انعقاد کرتی رہی ہے، جن میں جبری گمشدگیوں کے خلاف پچھلے سال اسلام آباد میں کئی دنوں کا ایک دھرنا بھی شامل تھا۔ اس دھرنے کے کئی شرکاء کو حکام نے گرفتار بھی کیا تھا اور بلوچ یکجہتی مارچ کے خلاف تشدد اور غیر انسانی سلوک کی رپورٹیں بھی سامنے آئی تھیں۔ آئندہ اتوار کے اجتماع کے موضوع پر بات کرتے ہوئے جاوید بلوچ نے مزید کہا، ”بلوچستان کے وسائل پر جو غیر ملکی معاہدے آئے روز کیے جا رہے ہیں، ان میں صوبے کی حقیقی قیادت کو کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ بلوچستان کے وسائل پر سب سے پہلے حق صوبے کے مقامی باشندوں کا ہے۔ مگر ہمارے وسائل باہر کے لوگ لوٹ رہے ہیں۔ گوادر میں مقامی لوگوں کو صاف پانی تک میسر نہیں اور حکومت ترقی کے بے بنیاد دعوے کر رہی ہے۔انہوں نے اس حوالے سے بالخصوص کسی معاہدے کا ذکر تو نہیں کیا، لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گوادر میں، جہاں یہ اجتماع منعقد کیا جا رہا ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت کئی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔
اس تناظر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور بلوچستان اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ کا کوئٹہ پریس کلب میں منگل کے روز ایک پریس بریفنگ کے دوران کہنا تھا کہ بلوچ راجی مچی کا انعقاد گوادر کے بجائے صوبے کے کسی اور حصے میں کیا جانا چاہیے تا کہ اس حوالے سے تمام خدشات دور ہو سکیں۔غزالہ گولہ کا مزید کہنا تھا، ”احتجاج ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ لیکن بعض معاملات میں زمینی حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی احتجاج نہ کرے۔ لیکن اس نے احتجاج کے لیے گوادر کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ گوادر ملک کا انتہائی حساس علاقہ ہے اور وہاں سکیورٹی خدشات سمیت قومی نوعیت کے معاملات میں کوئی رسک نہیں لیا جا سکتا۔ اس احتجاج کی وجہ سے وہاں ترقیاتی عمل متاثر ہو سکتا ہے۔‘‘
بلوچ راجی مچی کے انعقاد پر مبصرین کی رائے
بلوچستان کے سابق گورنر ملک عبدالولی خان کہتے ہیں کہ گوادر میں اس جلسے کے انعقاد پر پابندی سے صوبے کے دیرینہ سیاسی اور قومی معاملات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”بلوچستان میں اس وقت حقوق کی جو تحریک چل رہی ہے، اسے غیر سنجیدہ رویوں اور زمینی حقائق کے برعکس کیے گئے اقدامات سے نقصان پہنچا ہے۔ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا کوئی جرم نہیں۔ گوادر میں جلسے پر حکومتی اعتراض غیر سیاسی سوچ کا عکاس ہے۔ قومی تحریکیں دباؤ سے کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ اس معاملے کو حکومت دانش مندی سے حل کر سکتی ہے۔‘‘
ان کے بقول، ”بلوچستان میں غیر یقینی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے مقتدر حلقوں کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایک ایسی غیر سرکاری با اختیار کمیٹی تشکیل دے، جس میں تمام حلقوں کی نمائندگی ہو۔ حکومت مظاہرین کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے تاکہ غلط فہمیاں دور ہو سکیں۔‘‘
اسی طرح سیاسی تجزیہ کار ندیم خان نے بھی نمائندہ کو بتایا کہ اس سارے منظر نامے میں حکومت کو ”جملہ معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا، ”میرے خیال میں گوادر یا صوبے کے کسی اور حصے میں لوگ اگر احتجاج کرنا چاہتے ہیں، تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک احتجاجی تحریک ہے، جس میں شامل لوگ انصاف کے لیے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔