ایک حملہ کے پیغام

2.jpg

غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کی بربریت اور مجرمانہ اقدامات کے تسلسل کے پیش نظر یمن میں اسلامی مزاحمتی گروہ انصاراللہ نے مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کیلئے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مزاحمتی اقدامات مزید تیز کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حوثی مجاہدین نے صیہونی رژیم کے اقتصادی مراکز پر حملوں کی حکمت عملی اپنائی ہے تاکہ اس طرح صیہونی رژیم کی معیشت پر کاری ضرب لگا کر مظلوم فلسطینی قوم پر اس کے ظلم و ستم کی طاقت کم کی جا سکے۔ اسی حکمت عملی کے تحت انصاراللہ یمن نے گذشتہ چند ماہ کے دوران غاصب صیہونی رژیم کی انتہائی اہم اور اسٹریٹجک بندرگاہ "ام الرشراش” (ایلات) پر تابڑ توڑ حملے انجام دیے جن کے نتیجے میں اس وقت یہ بندرگاہ مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور صیہونی رژیم نے اس کی فعالیت صفر ہو جانے کا اعتراف کیا ہے۔

اسلامی مزاحمتی گروہوں کے سربراہان اس سے پہلے کئی بار غاصب صیہونی رژیم کو خبردار کر چکے تھے کہ اگر غزہ پر صیہونی جارحیت اور بربریت جاری رہی تو وہ اس کی اقتصادی، فوجی اور سیاسی طاقت پر کاری ضربیں لگائیں گے۔ دوسری طرف ان تمام وارننگز کے باوجود اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے اہل غزہ کے خلاف ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھنے کی واحد وجہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی سیاسی زندگی ہے۔ بنجمن نیتن یاہو اچھی طرح جانتا ہے کہ جب تک غزہ جنگ جاری ہے اس کا اقتدار اور سیاسی زندگی بھی جاری رہے گی اور جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے عدلیہ میں اس کے خلاف موجود کیسز دوبارہ کھل جائیں گے اور ان کا حتمی نتیجہ اس کی سیاسی موت کی صورت میں ظاہر ہو گا۔

لہذا بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں صیہونی حکومت غزہ میں مجرمانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے اور دوسری طرف اسلامی مزاحمت گروہوں نے بھی اس سرطانی غدے کے خلاف اپنی مزاحمتی کاروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اسلامی مزاحمتی بلاک کا ایک اہم رکن ہونے کے ناطے انصاراللہ یمن نے اب تک غاصب صیہونی رژیم کے خلاف بڑی تعداد میں موثر کاروائیاں انجام دی ہیں۔ ان مزاحمتی کاروائیوں میں غاصب صیہونی رژیم کے فوجی، اقتصادی اور دیگر حساس مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ حال ہی میں انصاراللہ یمن نے غاصب صیہونی رژیم کے مرکز یعنی تل ابیب کو ایک نئے خودکش ڈرون طیارے "یافا” کی مدد سے نشانہ بنایا۔ یہ ڈرون طیارہ کامیابی سے تل ابیب پر لگا اور امریکی سفارت خانے سے محض سو میٹر کے فاصلے پر دھماکہ کرنے میں کامیاب رہا۔ اس حملے نے غاصب صیہونی رژیم میں شدید خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی ہے۔

یافا خودکش ڈرون طیارہ تقریباً 2 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اور تمام فضائی دفاعی سسٹمز سے بچ نکلنے کے بعد صیہونی رژیم کے مرکز تل ابیب پر گرا۔ یاد رہے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے مقبوضہ فلسطین میں جدید ترین فضائی دفاعی نظام نصب کر رکھے ہیں۔ انصاراللہ یمن کے خودکش ڈرون طیارے نے تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے قریب واقع ایک اہم فوجی مرکز کو نشانہ بنا کر اسے تباہ کر دیا۔ اس حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی مزاحمتی بلاک کے سربراہان بدستور مظلوم فلسطینی عوام اور غزہ میں ثابت قدم مجاہدین کی ہر ممکنہ مدد اور پشت پناہی کا عزم راسخ کر چکے ہیں۔ لہذا اسلامی مزاحمتی گروہ مختلف انداز سے غاصب صیہونی رژیم کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ تل ابیب پر ڈرون حملے میں پوشیدہ ایک اور اہم پیغام یہ ہے کہ اسلامی مزاحمت فلسطین کی حمایت میں کسی حد تک بھی جا سکتی ہے۔

یافا خودکش ڈرون حملہ درحقیقت ایک وارننگ تھی اور انصاراللہ یمن نے غاصب صیہونی رژیم کو خبردار کیا ہے کہ تل ابیب بھی ہماری زد میں ہے اور ہم مستقبل قریب میں تل ابیب کو زیادہ بڑے حملوں کا نشانہ بھی بنا سکتے ہیں۔ لہذا تل ابیب پر یہ خودکش حملہ درحقیقت انصاراللہ یمن کی ایک نئی کامیابی تصور کی جا رہی ہے۔ یہ حملہ اسلامی مزاحمت کی جانب سے مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔ اسلامی مزاحمت نے اس حملے کے ذریعے غاصب صیہونی رژیم کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ وہ اس کے حساس مراکز کی مکمل شناخت رکھتی ہے اور اس کے اہم مراکز کی پوری انٹیلی جنس حاصل کر چکی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کیلئے اس حملے میں پوشیدہ ایک اور اہم پیغام یہ تھا کہ وہ لبنان کے خلاف کسی قسم کی جارحیت سے باز رہے۔ حزب اللہ لبنان کہیں زیادہ جدید ہتھیاروں سے لیس ہے اور زیادہ شدت سے تل ابیب کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے