تل ابیب خوف و وحشت کی لپیٹ میں
لبنان میں اسلامی مزاحمت نے شجاعانہ اور تیز اقدامات کی بدولت اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو بہت ہی مشکل اور بحرانی صورتحال سے روبرو کر دیا ہے۔ اس وقت تمام صیہونی حکمرانوں میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ حزب اللہ لبنان کی فوجی اور میزائل طاقت حتی اس مقدار سے بھی زیادہ ہے جس کا اندازہ اسرائیلی فوج اور موساد نے لگا رکھا تھا اور اگر موجودہ صورتحال جاری رہتی ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تل ابیب جنگ میں مزید بند گلی اور شکست سے روبرو ہوتا جائے گا۔ اس وقت غاصب صیہونی رژیم کی علاقائی سیاست میں ایک چیز طے پا چکی ہے اور وہ یہ کہ غاصب صیہونی رژیم نہ فقط حماس اور حزب اللہ لبنان کو شکست دینے کی طاقت نہیں رکھتی بلکہ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے اسلامی مزاحمتی گروہوں کے مقابلے میں اسرائیل کی زبوں حالی بڑھتی جا رہی ہے۔
حزب اللہ لبنان روز بروز مقبوضہ فلسطین میں اپنی مزاحمتی کاروائیوں کا دائرہ بڑھاتا جا رہا ہے اور مختلف صیہونی حلقے اس تلخ حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ گذشتہ 76 برس میں وہ پہلی بار ایسی دردناک صورتحال کا شکار ہوئے ہیں۔ اخبار رای الیوم نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف حزب اللہ لبنان کے تابڑ توڑ حملوں کے بارے میں لکھا: "اتوار کا دن صیہونی رژیم کیلئے بدترین دن تھا کیونکہ حزب اللہ لبنان نے پہلی بار مختلف قسم کے دسیوں میزائلوں سے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع علاقے الجلیل سفلی کو نشانہ بنایا۔ ان میں سے کچھ میزائل ناصرہ شہر کے قریب واقع صیہونی بستیوں اور دیہاتوں میں بھی گرے۔ اس کے علاوہ حزب اللہ کے میزائلوں نے طبریا شہر کو بھی نشانہ بنایا جو اب تک جاری جھڑپوں میں اہم تبدیلی شمار کی جا رہی ہے۔” صیہونی اخبار ہارٹز کے مطابق حزب اللہ لبنان کی جانب سے جاری مزاحمتی کاروائیوں کا سلسلہ مقبوضہ فلسطین میں 40 کلومیٹر اندر تک پہنچ چکا ہے.
حماس کی مسلسل پشت پناہی
حزب اللہ لبنان کی جانب سے حماس کی مسلسل حمایت اور پشت پناہی ایسی چیز نہیں جسے آسانی سے نظرانداز کیا جا سکتا ہو۔ مزید برآں، غزہ کی پٹی میں اسلامی مزاحمت کے خلاف جنگ شروع ہونے کے نو ماہ بعد اور حزب اللہ لبنان کی جانب سے فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی مسلسل حمایت اور پشت پناہی کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کس حد تک لبنان کے خلاف وسیع جنگ شروع کرنے میں سنجیدہ ہے؟ اسرائیل جو غزہ جنگ کی دلدل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے اور ایک ہی وقت دو محاذوں پر جنگ کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا اور اسرائیلی حکام بھی بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ صیہونی رژیم کا اندرونی محاذ کسی نئی جنگ کیلئے تیار نہیں ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کے اندرونی حلقے توقع کر رہے ہیں کہ لبنان سے وسیع جنگ کی صورت میں حزب اللہ روزانہ 5 ہزار میزائلوں سے انہیں نشانہ بنا سکتی ہے۔
اسی طرح صیہونی حکام اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ حزب اللہ لبنان اس رژیم کا انفرااسٹرکچر تباہ کرنے اور مقبوضہ فلسطین کے شمال میں موجود فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ دوسری طرف صیہونی اخبار معاریو نے صیہونی رژیم کے اعلی سطحی سکیورٹی عہدیداروں کے بقول اعلان کیا ہے کہ صیہونی فوج توپ کے گولوں، ٹینکوں، فوجی ہیلی کاپٹروں، ایئرفورس کیلئے ضروری ہتھیاروں اور بلٹ پروف جیکٹوں کی شدید قلت کا شکار ہے۔ اس صیہونی اخبار نے مزید لکھا کہ تل ابیب کو امریکی صدر کا شکرگذار ہونا چاہئے حو اسے مسلسل اسلحہ اور فوجی سازوسامان فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ ان تمام مشکلات کا نتیجہ ایک تھکا دینے والی جنگ اور اسرائیل کی شکست کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ جنگ میں دفاعی حکمت عملی زیادہ مشکل ہے اور اس کا نتیجہ زیادہ نقصان اور تھکاوٹ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
صیہونی اخبار معاریو مزید لکھتا ہے: حزب اللہ لبنان کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں ہیں اور لبنان سے وسیع جنگ کی صورت میں وہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے سرحدی علاقوں اور مرکز کی جانب ہزاروں میزائل داغ دے گی۔ حزب اللہ نے اپنی فوجی طاقت میں حیرت انگیز اضافہ کر لیا ہے اور اب وہ براہ راست طور پر گولان ہائٹس کو میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے شمال میں سکیورٹی زون بنا رکھا ہے جہاں اسے مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ گذشتہ 76 برس میں پہلی بار ہماری فوجی اور سویلین تنصیبات نشانہ بن رہی ہیں جبکہ آبادکار جلاوطن ہو چکے ہیں۔ جرمنی کے ریسرچ سنٹر کے مطابق حزب اللہ کے پاس اس وقت 75 ہزار میزائل اور راکٹ موجود ہیں جبکہ اس کے پاس تقریباً 2500 مختلف ڈرون طیاروں کا ذخیرہ بھی پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ فوجی ماہر عاموس آرئیل نے کہا ہے سید حسن نصراللہ کو روکنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ حماس کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ہے۔
شکست خوردہ ڈیٹرنس طاقت
غاصب صیہونی رژیم بارہا اس بات کا دعوی کر چکی ہے کہ وہ مضبوط ڈیٹرنس طاقت کی مالک ہے لیکن غزہ جنگ نے اس کا یہ دعوی غلط ثابت کر دیا ہے جبکہ حزب اللہ لبنان کی شجاعانہ مزاحمتی کاروائیوں نے تل ابیب کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی ہے۔ یہ وہی ہائبرڈ اور جامع شکست ہے جسے قبول کرنے کے علاوہ غاصب صیہونی رژیم کے پاس کوئی چارہ باقی نہیں بچا۔ صیہونی حکمران اور موساد بارہا بنجمن نیتن یاہو کو شمالی محاذ پر بحران جاری رہنے کی صورت میں خبردار کر چکے ہیں اور اب یہ وارننگ حقیقت کا روپ دھار رہی ہے۔ مستقبل قریب میں حزب اللہ لبنان صیہونی رژیم کو نئے بحرانوں سے روبرو کر دے گی اور ان پر قابو پانا نیتن یاہو کے بس کی بات نہیں ہو گی۔ حتی نیتن یاہو کی جگہ آنے والا کوئی نیا شخص بھی ان پر قابو نہیں پا سکے گا۔ اسرائیل کی ڈیٹرنس طاقت نہ صرف شکست کھا چکی ہے بلکہ پوری طرح ختم ہو چکی ہے۔