فرانس میں الیکشن کا سیاسی منظرنامہ

e-1.jpg

فرانس ملک گیر الیکشن کے آستانے پر ہے اور ایسے موقع پر دائیں بازو کی انتہاپسند سیاسی جماعتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں جس کے باعث فرانس کی سیاسی فضا بہت سے ابہامات کا شکار ہو چکی ہے۔ فرانس کے صدر ایمونوئل میکرون کا اقتدار خطرے میں دکھائی دے رہا ہے جبکہ اس بات کا امکان بڑھتا جا رہا ہے کہ ایک مختلف سیاسی پارٹی کا وزیراعظم اور کابینہ تشکیل پا جائے اور صدر ایمونوئل میکرون اس کے ساتھ مل کر چلنے پر مجبور ہو جائیں۔ دائیں بازو کی انتہاپسند سیاسی جماعت "قومی اجتماع” کو یورپی یونین کے الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی ہے جس نے فرانس کو حیرت زدہ کر دیا اور ایمونوئل میکرون نے وقت سے پہلے ہی مڈٹرم الیکشن کا اعلان کر دیا ہے۔ فرانس میں نئی قومی پارلیمنٹ کی تشکیل کیلئے دو مرحلے پر مشتمل الیکشن منعقد کیا جائے گا۔

فرانس کا نظام حکومت نیمہ صدارتی ہے اور منفرد ترکیب کا حامل ہے جس کی وجہ سے نتائج کی واضح انداز میں پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے ممکنہ نتائج کے بارے میں بہت سے مفروضے قائم کئے جا رہے ہیں جس کے سبب فرانس اور یورپ موجودہ عالمی سطح پر عدم استحکام کی فضا میں حیران و سرگردان ہو چکے ہیں۔ فرانس میں الیکشن کا نظام کچھ یوں ہے کہ قومی پارلیمنٹ میں کل 577 سیٹیں ہیں۔ رکن پارلیمنٹ کی ذمہ داری قانون سازی کے عمل میں قوانین پیش کرنا، ان کی اصلاح کرنا اور ان کے بارے میں ووٹ دینا ہے۔ الیکشن کے پہلے مرحلے میں فرانسیسی ووٹرز اپنے اپنے حلقوں میں مختلف امیدواروں میں سے ایک کا انتخاب کریں گے۔ اگر تو کوئی امیداور سادہ اکثریت (25 فیصد ٹرن آوٹ کے ساتھ 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا) حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ کامیاب امیدوار قرار پائے گا۔

پہلے مرحلے کے اختتام پر اگر کوئی بھی امیدوار سادہ اکثریت حاصل نہ کر پایا تو الیکشن کا دوسرا مرحلہ منعقد کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں جو امیدوار بھی 12.5 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا وہ دوسرے مرحلے میں داخل ہو سکے گا۔ وہ امیدوار جو دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرے گا قومی پارلیمنٹ میں ایک سیٹ کا مالک قرار پائے گا۔ فرانس کا حکومتی نظام انتہائی منفرد ہے جس کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ یہ صدر اور طاقتور پارلیمنٹ کے مجموعے پر مشتمل ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت کے حامل بہت سے دیگر ممالک جیسے برطانیہ یا کینیڈا کے برعکس فرانس میں صدر براہ راست عوام کی جانب سے چنا جاتا ہے اور عوام اسے مینڈیٹ دیتے ہیں۔ فرانس کے نئے آئین میں صدر کو خاص اختیارات دیے گئے ہیں جن میں پارلیمنٹ کی تحلیل یا ریفرنڈم منعقد کروانے کی دعوت شامل ہے۔

فرانس میں عنقریب منعقد ہونے والی پارلیمانی الیکشن کے ممکنہ نتائج کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں پیش کی جا رہی ہیں۔ ایک امکان یہ ہے کہ موجودہ صدر ایمونوئل میکرون کی پارٹی کو اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ پارلیمانی الیکشن میں ہر سیاسی جماعت کم از کم 289 سیٹیں حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ قومی پارلیمنٹ میں اکثریت کی حامل جماعت بن جائے جس کے نتیجے میں وہ دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کے بغیر اپنا مطلوبہ لائحہ عمل اور قانون منظور کروانے کے قابل ہو جاتی ہے۔ اگر ایمونوئل میکرون کی پارٹی "لبرل رینائسنس” کامیاب ہو جاتی ہے تو صدر میکرون ایک بار پھر گیبریل آتال کو اپنا وزیراعظم نامزد کر سکتے ہیں۔ سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا امکان بہت کم ہے کیونکہ میکرون کی پارٹی اس وقت دوسرے نمبر پر ہے اور پہلے نمبر پر میرین لوپن کی پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر پارٹیوں کے درمیان اتحاد ہے.

اگر ایک سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت حاصل نہ کر پائے، یعنی سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کر لے لیکن 289 سیٹیں حاصل کرنے میں ناکام رہے تو وہ اکیلے حکومت تشکیل نہیں دے سکتی اور اسے خاص قوانین کی منظوری کیلئے بھی اتحاد بنانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہی صورتحال میکرون کی پارٹی کی تھی جس کے پاس پارلیمنٹ کی 230 سیٹیں تھیں۔ پارلیمانی الیکشن میں ایک تیسرا امکان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ممکن ہے ایک پارٹی پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئے لیکن دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کر اتحاد تشکیل نہ دے پائے۔ ایسی صورت میں حکومت کی تشکیل بحرانی صورتحال سے روبرو ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو فرانس شدید سیاسی بحران کا شکار ہو جائے گا کیونکہ اب تک ایسا نہیں ہوا۔

موجودہ پارلیمانی الیکشن میں ایک امکان یہ پایا جاتا ہے کہ ممکن ہے حکمران جماعت سے ہٹ کر کوئی اور جماعت پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ممکن ہے وہ دائیں بازوہ کی انتہاپسند جماعت ہو یا بائیں بازو کا نیا عوامی اتحاد ہو۔ ایسی صورت میں صدر مجبور ہے اکثریت کی حامل جماعت سے وزیراعظم نامزد کرے۔ اس کے بعد وزیراعظم اپنی کابینہ تشکیل دے گا اور دو مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے صدر اور وزیراعظم ایک ساتھ کام کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک سروے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دائیں بازوہ کی انتہاپسند جماعت فرانس قومی اجتماع اور اس کے اتحادی 35.5 فیصد ووٹ حاصل کر کے پہلے مرحلے میں سب سے آگے ہیں۔ آئپس فاونڈیشن نے فرانسیسی اخبار لاپاریزین اور ریڈیو فرانس کیلئے ایک سروے انجام دیا ہے جس کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیا عوامی اتحاد 29.5 فیصد ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر ہے۔ ایمونوئل میکرون کا اتحاد 19.5 فیصد ووٹوں سے تیسرے نمبر پر ہے.

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے