کینیا: ٹیکس اضافے کے خلاف پرتشدد مظاہرے، ہلاکتوں کی تعداد 13 ہوگئی، فوج طلب

261418078bf792b.jpg

کینیا میں بجٹ میں ٹیکسز کی بھرمار کے خلاف پرتشدد مظاہروں کے دوران پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 13 ہوگئی، جھڑپ میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے۔غیر ملکی خبررساں ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق کینیا میں قانون سازوں کی جانب سے نئے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس کی بھرمار کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں پارلیمنٹ کا رخ کیا اور مطالبہ کیا کہ اس بجٹ کو منظور نہ کیا جائے۔

تاہم، قانون سازوں کی جانب سے بجٹ کی منظوری کے بعد مظاہرین پارلیمنٹ کے اندر گھسنے میں کامیاب ہوگئے، جہاں انہوں نے مختلف حصوں کو آگ لگادی اور پارلیمنٹ کے احاطے میں کھڑی گاڑیوں کو بھی آگ لگادی۔
مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے ابتدائی طور پر آنسو گیس کی شیلنگ کی ، پانی کے ٹینکر کا استعمال کیا اور ربڑ کی گولیاں چلائیں، اس دوران ارکان اسمبلی کو زیر زمین ٹنل کے ذریعے وہاں سے نکالا گیا، جب کہ کچھ قانون سازوں نے اپنے چیمبرز میں چھپ کر جان بچائی۔

کینیا کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق پولیس کی براہ راست فائرنگ اور جھڑپ کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے، جب کہ متعدد زخمیوں کی حالت تشیوشناک ہے جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔ایمنسٹی کینیا سمیت متعدد این جی اوز نے مشترکہ بیان میں کہا کہ حکومت کی جانب سے اسمبلی کے حق کے تحفظ اور سہولت فراہم کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود احتجاج تشدد کی شکل اختیار کر گیا ہے۔دوسری جانب ، حالات بے قابو ہونے پر حکومت نے مختلف شہروں میں فوج تعینات کردی، فوج کو صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے پولیس کی معاونت کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

کینیا کے صدر ولیم روٹو کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کینیائی باشندوں کی سیکیورٹی ان کی اولین ترجیح ہے۔اپنے خطاب میں انہوں نے کہا ’میں اس پرتشدد واقعات کے منصوبہ سازوں، فنانسر اور انارکی کو فروغ دینے والے عناصر کو نوٹس دیتا ہوں، اور میں کینیا کے لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان واقعات کا موثر انداز میں جواب دیں گے عالمی ویب مانیٹر نیٹ بلاکس نے رپورٹ کیا کہ ملک میں انٹرنیٹ سروس متاثر ہو رہی ہے، گزشتہ روز پرتشدد مظاہروں کے بعد سے ملک کے بیشتر حصوں میں تاحال انٹرنیٹ سروس بند ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ روز حالات بے قابو ہونے کے بعد سے 21 لوگوں کو اغوا یا لاپتہ کیا جاچکا ہے، جن میں اکثریت سوشل میڈیا ایکٹوسٹ یا تجزیہ کاروں کی ہے، مظاہرین کی جانب سے صدر ولیم روٹو کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔

مظاہرین پر براہ راست فائرنگ پر رد عمل دیتے ہوئے کینیا کے مرکزی اپوزیشن اتحاد ایزیمیو نے کہا کہ حکومت نے ہمارے ملک کے بچوں پر وحشیانہ انداز میں طاقت کا استعمال کیا۔انہوں نے کہا کہ کینیا اپنے بچوں کو صرف اس لیے مارنے کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ بچے خوراک، نوکری مانگنے کے ساتھ اپنی بات سننے کا مطالبہ کررہے ہوں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے