امریکہ، اسرائیل کی سیاسی معرکہ آرائی اور غزہ جنگ
غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے تقریباً نو ماہ جس متحرک امریکی امداد و حمایت کے ساتھ مکمل ہو رہے ہیں، کیا اس جنگ کا اختتام ایسے حالات میں ہو گا کہ امریکہ کی حمایت اسرائیل کو حاصل نہیں ہو گی؟ اس سوال پر غور اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ امریکہ کی جو بائیڈن انتظامیہ اور اسرائیل کی نتن یاہو حکومت ان نو ماہ کے درمیان بظاہر اس وقت بدترین تعلقات سے گزر رہی ہے۔وجہ یہ ہے کہ ہر طرف سیاست کا غلبہ اور اپنے اپنے سیاسی بچاؤ کی فکر دامن گیر ہے۔ جو بائیڈن اور نتن یاہو کے ہاں سیاسی نفسا نفسی کا یہ عالم دیکھا نہ جائے کا ماحول ہے۔ حتیٰ کہ جنگی حکمت عملی، جنگی بیانیے، جنگ بندی کے منصوبے اور جنگی طوالت سب کے پیچھے سیاست کی کارفرمائی ہے۔
اگر امریکہ اور اسرائیل کے تعلق، قربت، اتحاد اور مشترکہ اہداف کی کل عمر یہی کوئی آٹھ، نو ماہ یا چند سال کی تاریخ سے آگے نہ ہو تو امریکی انتظامیہ و اسرائیلی حکومت کی موجودہ صورت حال قابل توجہ ہے بلکہ قابل تشویش ہے۔ مگر واقعہ ایسا نہیں ہے۔ امریکہ و اسرائیل جنم جنم کے ساتھی ہیں۔ ان کی قربت گہری اور قدیمی ہے۔ ان کے اہداف اور مقاصد واضح اور طویل المدتی ہیں۔اس لیے کہ یہ مختصر دورانیے کے ڈرامے کی طرح کی ناراضی سے زیادہ معنی رکھنے والی بات نہیں ہو سکتی، تاہم یہ طے ہے کہ دونوں طرف کی سیاسی ضرورتوں اور وقتی مجبوریوں کے باعث اس برے ذائقے (Bad Taste) کے ماحول سے گزرنا پڑے گا۔امریکہ میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو صدارتی انتخاب کا معرکہ درپیش ہے۔ اس وجہ سے محض عارضی و وقتی ضرورت اور تکلیف کا یہ سامنا دونوں طرف رہ سکتا ہے۔ بلاشبہ اپنے موجودہ مدمقابل ڈونلڈ ٹرمپ پر پچھلے صدارتی انتخاب کے دوران جو بائیڈن کو کوئی بہت بڑی برتری حاصل تھی، نہ ایسی علامات نومبر 2024 کے صدارتی معرکے کے حوالے سے نظر آ رہی ہیں۔
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نو ماہ کی غزہ جنگ میں اسرائیل کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو کر اب تک تقریباً 37550 سے زائد فلسطینیوں کی موت کے بعد بھی غزہ جنگ کے بارے میں پالیسی تبدیلی کا اشارہ نہ دیتی تو اپنے لیے سیاسی خودکشی کا راستہ منتخب کر رہی ہوتی۔22 جون 2024 کے ایک تازہ عوامی جائزے کے مطابق امریکی ووٹرز میں جو بائیڈن اور ان کی جماعت کی مقبولیت 40.7 فیصد ہے جبکہ ٹرمپ اور ان کی جماعت کی مقبولیت 40.5 فیصد ہے۔ جو بائیڈن کی یہ پوزیشن بھی ان کی غزہ جنگ کے حوالے سے جزوی پالیسی تبدیلی کے اشاروں کے بعد ہے۔ جن میں سے ایک اشارہ بوئنگ ساختہ امریکی بموں کی رفح پر زمینی حملے سے پہلے ترسیل روکنے کے عبوری فیصلے پر مبنی ہے اور دوسرا اہم اشارہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے جو بائیڈن کا 31 مئی کو پیش کیا گیا ’روڈ میپ‘ ہے۔
یہ ’روڈ میپ‘ کیا ہے اس پر اگلی سطور میں بات ہو سکتی ہے مگر یہ طے ہے کہ اگر یہ بھی نہ ہوتا تو پیش آئند صدارتی انتخاب کے لیے ڈیموکریٹ اور ری پبلکنز کے درمیان مقابلے میں اس خفیف سی برتری کا تاثر جو بائیڈن کی دل خوش کنی کے لیے شاید موجود نہ ہوتا۔گویا یہ واضح ہے کہ غزہ کی جنگ اور فلسطینیوں کا مستقبل فی الحال جو بائیڈن کی سیاسی مصلحتوں، مجبوریوں اور ضرورتوں کے تابع رہے گا۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتخابی معرکے کے بعد جو بائیڈن کی اندرونی سیاسی مجبوریاں ممکنہ طور پر انتخاب جیتنے کی صورت میں موجودہ والی نہ ہوں گی۔(فی الوقت ڈونلڈ ٹرمپ یا رپبلکنز کے صدارتی انتخاب جیتنے کے امکان کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف ایک پہلو پر بات کی جا رہی ہے۔)
اس تناظر میں بھی جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ بہت ہنر مندی سے کھیل رہی ہے اور اس نے اسرائیل کی غزہ جنگ کے لیے مدد و حمایت میں کوئی جوہری کمی کیے بغیر اپنے امریکی ووٹروں اور عالمی رائے عامہ کو پالیسی تبدیل کرنے کے سحر میں جکڑنے کی کافی حد تک کامیاب کوشش کر ڈالی ہے۔باوجود یہ کہ امریکہ نے نہ صرف چند سو یا چند ہزار بوئنگ ساختہ بموں کی ترسیل کے علاوہ اسرائیل کے لیے اپنی فوجی امداد اور اسلحہ فراہمی میں قطعاً کوئی کمی نہیں کی ہے اور سات اکتوبر 2023 سے لے کر مئی 2024 کے اواخر تک 12.5 ارب ڈالر کی فوجی امداد دینے کے لیے قانون سازی کی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ مئی میں جب امریکی صدر کا غزہ جنگ بندی کے لیے ’روڈ میپ‘ آ رہا تھا، اسی کے جلو میں امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو 8.7 ارب ڈالر کی فوجی امداد کی منظوری دے دی گئی۔ اسی ماہ مئی کے دوران اسرائیل کے لیے ایف 15 طیاروں کی فراہمی میں رکاوٹ بنے ارکان کانگریس کو رام کیا گیا اور منظوری دلوائی گئی۔ ان طیاروں کی قیمت 18 ارب ڈالر ہے۔
’مسلم بھی رہے راضی، یہودی بھی ناراض نہ ہوں‘
امریکی صدر کا جنگ بندی ’روڈ میپ‘ بھی اگر دیکھا جائے تو یہ امریکہ کی نو ماہ سے چلی آ رہی سفارتی و جنگی حکمت عملی سے ہٹ کر ایک ’آؤٹ آف باکس‘ آئٹم ہے۔ جس امریکہ نے کم از کم تین بار غزہ میں جنگ بندی کو ویٹو کیا تھا۔ وہ اب ’جنگ بندی روڈ میپ‘ کی مارکیٹنگ کر رہا ہے۔بلاشبہ یہ بھی جو بائیڈن انتظامیہ کی سیاسی مجبوریوں کا آئینہ دار ہے کہ اگر اسرائیلی فوجی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری کے الفاظ مستعار لے کر استعمال کیے جائیں تو یہ عوام کی آنکھوں میں ریت جھونکنے کے مترادف ہے۔ایڈمرل ہگاری نے یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بجائے ریت جھونکنے کی اصطلاح یقیناً صدر جو بائیڈن کے لیے نہیں بلکہ اسرائیل کی اپنی حکومت کے لیے اس کا نام لیے بغیر استعمال کی ہے، ’جو لوگ حماس کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں، وہ عوام کی آنکھوں میں ریت جھونکنے کی بات کرتے ہیں۔‘
اسرائیلی فوجی ترجمان کے مطابق ’حماس ایک نظریہ ہے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘
اسرائیل کے اعلیٰ ترین فوجی ترجمان کا یہ بیان امریکی امداد کے ساتھ لڑی جانے والی غزہ میں اسرائیلی جنگ کے بارے میں آنکھیں کھول دینے والا تبصرہ ہے۔ اسرائیل اور امریکہ نچلے ہو کر بیٹھ جائیں گے جبکہ غزہ کی جنگ کو اسرائیل اپنے وجود اور بقاء کا مسئلہ بنا چکا ہے اور امریکہ مشرق وسطیٰ کو اپنے عالمی مفادات کے تناظر میں کسی صورت چھوڑ نہیں سکتا۔لہذا ڈھاک کے تین پات کے مصداق امریکی صدارتی انتخابات کے بعد اگر جو بائیڈن دوبارہ صدر بن جاتے ہیں تو ان کی حکمت عملی جاری سیاسی مجبوریوں سے کافی حد تک بے نیاز ہو چکی ہو گی۔ اس لیے وہ ایک مرتبہ پھر امکانی طور پر پورے صہیونی کے انداز میں غزہ پر پلٹ کر وار کرنے کی کوشش میں ہوں گے۔۔ اگر جیت گئے!اتفاق سے ادھر اسرائیل میں بھی غزہ جنگ کے نویں ماہ میں سیاست کا کھیل تیز ہو چکا ہے۔ سات اکتوبر کے بعد بھی نتن یاہو کے خلاف عوامی احتجاج کی مختلف شکلیں موجود رہی ہیں، لیکن درمیان میں یہ احتجاج قدرے ٹھنڈا ہوتا دکھائی دیا تھا۔
اب بینی گینٹز کے جنگی کابینہ سے استعفے کے بعد اس میں تیزی نظر آ رہی ہے۔ 22 جون کو ہفتے کے روز ڈیڑھ لاکھ اسرائیلیوں نے تل ابیب میں نتن یاہو اور ان کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ نئے انتخابات کا مطالبہ کیا، ان کی حکومت کو اسرائیل کے لیے خطرناک قرار دیا اور غزہ جنگ کی پالیسی سمیت ناکامی پر تنقید کی۔ایک طرف ساحلی شہر تل ابیب پر عوامی احتجاج کی یلغار ہے اور وہ 2026 کے متوقع عام انتخابات سے بہت پہلے نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف اسرائیل کے دوسرے ساحلی شہر حیفا پر حزب اللہ کے راکٹوں، میزائلوں اور ڈرونز کی للکار ہے جبکہ یمن کے حوثی بھی بحیرہ احمر سے آگے بڑھ کر بحیرہ روم تک وار کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔کٹر انتہا پسند یہودیوں کے لیے لازمی فوجی ملازمت سے استثنیٰ کا بل ابھی پارلیمان میں منظور ہونا باقی ہے۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑے سیاسی معرکے کا باعث بن سکتا ہے کہ اس بل کے خلاف نتن یاہو کے اپنے وزیر دفاع کا ووٹ بھی آ چکا ہے۔ خود نتن یاہو کے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات اور اعتماد کی فضا بگڑ رہی ہے۔ عدالتوں میں نتن یاہو کے خلاف کرپشن کیسز کی تلوار بھی مسلسل لٹکی ہوئی ہے۔
حتیٰ کہ خود اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اور غزہ جنگ کے کپتان وزیر دفاع کے ساتھ نتن یاہو کے تعلقات مسلسل خراب ہو رہے ہیں۔ جس طرح ہفتے کے روز کے عوامی احتجاج میں پارلیمنٹ میں موجود ارکان کو ’چوہے‘ قرار دیا جاتا رہا۔ خود نتن یاہو کا دفتر اپنے اسی وزیر دفاع کو حالیہ دنوں میں ’بے شرم اور احمق‘ قرار دے چکا ہے۔اہم بات ہے کہ پینٹاگون نے اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کو نتن یاہو کے 24 جولائی کو کانگریس سے خطاب سے بھی پہلے اپنے ہاں بلا لیا ہے۔ یوآو گیلنٹ اپنے دورہ امریکہ کو غزہ جنگ کے حوالے سے فیصلہ کن قرار دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس نتن یاہو ایک ویڈیو جاری کر کے اپنے لیے امریکہ میں کئی سوالات تو خود ہی جنم دے چکے ہیں۔
اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح جو بائیڈن امریکہ کے سیاسی بھنور میں ہیں۔ نتن یاہو اسرائیلی سیاست کے منجدھار میں ہیں، مگر دونوں کی حکومتیں اپنے اپنے انداز میں اپنے اپنے سیاسی بچاؤ کے لیے فی الحال ایک دوسرے سے دوری اور ناراضی کو ہی اپنی سیاسی کمزوریوں کے ازالے کے لیے اکسیر سمجھتی ہیں۔اس لیے ایک سیاسی انداز کی بیان بازی جو بائیڈن انتظامیہ نتن یاہو کے بارے میں اور نتن یاہو جو بائیڈن انتظامیہ کے بارے میں مفید خیال کر رہے ہیں۔ یہ کہنا سر دست مشکل ہے کہ ان دونوں کے درمیان اس اظہار اختلاف پر کوئی خاموش معاہدہ موجود ہے یا نہیں۔ لیکن یہ حقیقت ساری دنیا میں عام طور پر ظاہر ہوتی رہی ہے کہ انتخابات کی مہم کے دوران ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنانے والے بعد از انتخابات باہم اتحادی بن جاتے ہیں اور شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔
لہذا غزہ کی جنگ اس سیاسی کھیل اور ضرورت کے تحت عارضی طور پر اسی طرح کی سیاسی جمع تفریق کے تابع رہ سکتی ہے۔ جیسا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے روڈ میپ کے بارے میں بعض مبصرین کی رائے ہے کہ یہ سنجیدہ اور عملی پیش رفت کی خاطر کم جبکہ امریکی عوام اور عرب دنیا کو بیوقوف بنانے کے لیے زیادہ ہے۔اصل پرت امریکہ اور اسرائیل کے سیاسی منظر ناموں کی سمت واضح ہونے کے بعد کھلیں گے کیونکہ جو بائیڈن کا ’جنگ بندی روڈ میپ‘ بھی بجائے خود ڈونلڈ ٹرمپ کے تخلیق کردہ ابراہم معاہدے کا متبادل بنانے ہی کی کوشش ہے کہ اس کی کامیابی کے راستے نارملائزیشن کا عمل بھی آگے بڑھ سکے، مگر یہ جو سیاست کا دھندا ہے بڑا ہی گندا ہے۔اس لیے یہ دکھتا نظر نہیں آتا کہ غزہ کی جنگ کا اختتام ایسے حالات میں ہو گا کہ اسرائیل کو امریکی حمایت حاصل نہیں ہو گی۔ جنگ بندی یا جنگی اختتام جب بھی ہوگا جنم جنم کے ساتھی ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں گے۔ جس طرح کہ دوران جنگ اس سے پہلے ہوتا رہا ہے۔