کیا چین ناراض ہے؟
چین کی کمیونسٹ پارٹی کے انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ کے منسٹر اور پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن لیو جیان چاؤ(Liu Jianchao) دو روزہ دورے پر پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ وہ ایک تجربہ کار سفارتکار اور سیاستدان ہونے کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی کے اہم ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا یہ دورہ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ چین میں طے پانے والے امور کا فالواپ قرار دیا جا رہا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کا نمائندہ ہونے کے ناطے وہ پاکستان میں غیرسرکاری لوگوں سے بھی مل کر پلس معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے دورے کے آغاز پر پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ ژاوڈونگ نے ان کے ساتھ تبادلہ خیال کیلئے ڈنر کا اہتمام کیا تھا جس میں پاکستانی سائیڈ سے سینیٹر سلیم مانڈوی والا، ڈاکٹر ملیحہ لودھی، سہیل محمود (سابق سیکرٹری خارجہ)، نغمانہ ہاشمی (چین میں پاکستان کی سابق سفیر)، ڈاکٹر ظفر نواز جاسپال اور اس طالب علم کو مدعو کیا گیا تھا۔ جبکہ منسٹر کے ساتھ آئے ہوئے وفد کے ارکان کے علاوہ سفارتخانے کے حکام بھی موجود تھے۔
وقت بھی کافی تھا اور دیگر سفارتکاروں کے برعکس لیوجیان چاؤبڑے کھلے انداز میں دو ٹوک گفتگو کررہے تھے اس لئے نشست کا بڑا مزہ آیا اور بہت سارے ایشوز سے متعلق چینی موقف کو سمجھنے کا موقع ملا۔ ہم نے بھی ان کو خوب سنا اور انہوں نے بھی ہمیں خوب سنا۔ سی پیک اور پاک چین تعلقات پر تو گفتگو ہونی ہی تھی درمیان میں امریکہ، روس اور یورپ کے ساتھ چین کے تعلقات کے موضوعات پر بھی گفتگو ہوئی اور علم میں اضافہ ہوا۔
ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ چینی سرے سے ان لائنوں پر گفتگو کرتے ہیں اور نہ سوچتے ہیں جن پر ہمارے ہاں بحث و مباحثہ جاری ہے۔ ہم پاکستانی تو امریکا اور چین کے تناؤ کے بارے میں بھی بڑے پریشان ہیں لیکن چینی خود مطمئن ہیں اور اپنے انداز میں خوب تیاری کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا نعرہ وکٹری (Victory) نہیں بلکہ سکسس (Success) ہے۔ وکٹری میں آپ دوسرے پر غلبہ پانے کی سوچ رکھتے ہیں جبکہ سکسس میں آپ صرف اپنی کامیابی کا سوچتے ہیں اور یہی ہماری کامیابی ہے۔ اسی طرح بی آر آئی پروجیکٹ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ہم مشترکہ ترقی (Shared prosperity) کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور جن ملکوں کے ساتھ بھی تعلقات رکھتے ہیں اس بنیاد کو مدنظر رکھتے ہیں۔
ہمارے گروپ میں چونکہ میرے سوا باقی سب نپی تلی اور ڈپلومیٹک انداز میں گفتگو کرنے والے لوگ تھے اس لئے انہوں نے بڑی اچھی تجاویز بھی دیں اور سوالات بھی کئے لیکن میں نےاپنی رائے کے اظہار کی بجائے سوالات پر اکتفا کیا اور وہ بھی بڑے بلنٹ انداز میں۔ میں نے ان سے کہا کہ پہلے تو صرف باہر پروپیگنڈا ہورہا تھا اور اب ملک کے اندر بھی بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ چین پاکستانیوں کے سی پیک کی ڈیلنگ اور بیوروکریٹک نااہلیوں اور رکاوٹوں سے تنگ آگیا ہے۔ پاکستانی اسپیڈ چین کی اسپیڈ سے میچ نہیں کرتی۔
سیکورٹی کے مسائل اس کے علاوہ ہیں ۔ اس لئے چین میں یہ سوچ فروغ پا رہی ہے کہ سی پیک کو رول بیک کیا جائے یا پھر سردخانے میں ڈال دیا جائے اور شاید اس لئے سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کام کا آغاز نہیں ہو رہا۔ میرا سوال سنتے وقت لیوجیان چاؤ زیرلب مسکرا رہے تھے اور پھر گویا ہوئے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ چین میں کوئی دوسری سوچ فروغ نہیں پارہی۔ چینیوں کی ایک سوچ ہے کہ پاکستان ایک آزمودہ اور ہر موسم کا دوست ہے۔ چین میں پاکستان کے بارے میں تین امور کا ذکر ہوتا ہے۔ پہلا یہ ہے کہ پاکستان ایک بااعتماد دوست اور اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ دوسرا یہ کہ وہاں امن وامان کی صورت حال تسلی بخش نہیں اور تیسرا وہاں سرمایہ کاری ایک رسکی کام ہے لیکن ان سب حقائق کے ہوتے ہوئے ہم نے سی پیک کا آغاز کیا ہے اور پاکستان کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو بہ ہر صورت آگے بڑھائیں گے۔
یہ مشکلات اپنی جگہ ہیں لیکن ہمیں معلوم ہے کہ کہاں کہاں سے یہ مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں۔ ان مشکلات کے ہوتے ہوئے ہم نے سی پیک کا آغاز کیا تھا اور اسی اسپرٹ کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے ۔سی پیک یا پاکستان سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک طرف پاکستان صرف دوست نہیں بلکہ اسٹرٹیجک پارٹنر ہے جبکہ دوسری طرف سی پیک بی آر آئی (بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ٹیو) کا فلیگ شپ پروجیکٹ ہے۔ ہاں جو مشکلات ہیں ان پر قابو پانےکیلئے ہم دونوں ملک کوشش کر رہے ہیں۔
ازراہ مذاق انہوں نے کہا کہ آج میں نے محسوس کیا کہ میرے لئے بھی سکیورٹی کا غیرمعمولی انتظام کیا گیا تھا۔وزیراعظم شہباز شریف کے دورے کے بعد اب میں آیا ہوں جبکہ ہم نے ٹاسک فورس بھی بنا دی ہے جو فیز ٹو پر پاکستان کے ساتھ تعاون کو بہتر بنانے کیلئے جلد پاکستان آئے گی۔ تاہم انہوں نے ایک اور پیرائے میں یہ بات کہی کہ چین نے اگر ترقی کی ہے تو اس کی وجہ سیاسی استحکام ہے اور (پاکستان کو بھی ترقی کیلئے سیاسی استحکام چاہئے) امریکہ کے معاملے پر انہوں نے ایک اچھی بات یہ کہی کہ روس اور ہماری ہم آہنگی زیادہ ہے۔ ترقی پذیر اور آسیان ممالک کی بڑی تعداد کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں جبکہ یورپ کے بعض ممالک بھی امریکی اثر سے نکلنا چاہتے ہیں۔
یہ تو مسٹر لیون جیان چاؤکی گفتگو کے اہم نکات تھے لیکن تین گھنٹے کی نشست سے میں نے جو تاثر لیا وہ کچھ یوں ہے کہ چینی سی پیک کو آگے بڑھانے کے بارے میں بالکل یکسو ہیں۔ سی پیک ان کے لئے بی آر آئی کافلیگ شپ پروجیکٹ ہی نہیں بلکہ اسٹرٹیجک پروجیکٹ بھی ہے۔ وہ اسٹرٹیجک پارٹنر ہونے کے ناطے پاکستان کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑنا چاہتے۔ تاہم پاکستان میں سی پیک کے معاملے پر جو سیاست کی جاتی ہے اسے وہ پسند نہیں کرتے۔ وہ اسے ایک پارٹی کا نہیں بلکہ پاکستان کا پروجیکٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح وہ پاکستان کے بیوروکریٹک کلچر سے بھی تنگ ہیں۔ سکیورٹی کی صورت حال ان کے لئے تشویش کا ایک بڑا عامل ہے۔ اسی طرح وہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام سے پریشان اور سیاسی استحکام کے خواہشمند ہیں لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ سی پیک کے بارے میں یا پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں نظرثانی کا سوچ رہے ہیں۔ ایک مخلص دوست کی طرح ان کی تکلیف صرف یہ ہے کہ جس رفتار سے وہ اپنے ملک میں پروجیکٹ مکمل کرتے ہیں، اسی طرح وہ سی پیک پر بھی کام چاہتے ہیں اور صنعتی ترقی کیلئے جس اسپیڈ اور جس طرز کو انہوں نے اپنایا تھا، وہی وہ پاکستان میں بھی چاہتے ہیں۔ لیکن سی پیک یا پاکستان سے ہاتھ اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔