184 سال سے زنجیروں میں جکڑے دروازوں کی کہانی کیا ہے؟
خیبر پختونخوا کا شب قدر قلعہ سکھوں کے شاندار دور حکمرانی کی ایک مثال ہے، اس قلعے کے داخلی دروازے تقریباً دو سو سال سے قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔شبقدر ضلع چارسدہ کی ایک تحصیل ہیڈ کوارٹر ہے، یہاں کے مشہور پرکشش مقامات شبقدر بازار اور شبقدر قلعہ ہیں۔یہ قلعہ مٹی اور پتھر سے بنا ہے، اسے سکھ ماہر تعمیرات توتا رام نے 1837 میں ڈیزائن کیا تھا، اس وقت یہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کنٹرول میں ہے۔حال ہی میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ان دروازوں میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے، کمانڈنٹ ایف سی معظم جاہ انصاری نے قلعے اور زنجیروں میں جکڑے دروازوں کے تاریخی پس منظر پر وزیر داخلہ کو بریفنگ دی۔آیئے ان دروازوں سے جڑے دلچسپ تاریخی واقعے پر نظر ڈالتے ہیں۔
شب قدر قلعے کے دو سیاہ دروازوں کو سیاحوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ان کی زنجیریں بناتی ہیں جن میں یہ پونے دو سال سے جکڑے ہوئے ہیں۔ ان دروازوں کو زنجیروں میں جکڑنے سے متعلق مقامی افراد کا کہنا ہے کہ 1840 میں پنجابی سلطنت کے بانی راجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے کے زمانے میں مہمند لشکر نے حملہ کیا تھا۔حملے میں مذکورہ دروازہ ٹوٹ گیا اور حملہ آور اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔بعد ازاں فرانسیسی جنرل کے زمانے میں ایک عدالتی انکوائری کی گئی جس میں طے پایا کہ شکست کی وجہ دروازہ ہے کیوں کہ دروازہ ٹوٹنے کے سبب حملہ آور اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔انکوائری کے بعد ایک عدالتی فیصلے میں دروازے کو 100 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اس دروازے کو تاریخی ورثے کا درجہ دیا گیا ہے۔
مہمند قبائل لشکر کا حملہ روکنے میں قلعے کے دروازے ناکام رہے تھے جس پر سکھ سرکار نے انکوائری کر کےان دروازوں کو قصور وار ٹھہرایا اور انہیں 100 سال کی سزا دے کر زنجیروں میں جکڑ دیا، دو صدیاں ختم ہونے کو ہیں مگر ان دروازوں کی سزا ختم نہ ہو سکی۔26 اکتوبر 2015 میں آنے والا زلزلہ بھی ان دروازوں کو زنجیروں سے آزاد نہ کرا سکا۔ اس زلزلے کے نتیجے میں قلعے کی مٹی سے بنی دیواروں کو نقصان پہنچا تھا