راولپنڈی: جاسوسی کے الزام میں زیر حراست سابق انٹیلیجنس افسر کی گرفتاری چیلنج
رپورٹ کے مطابق یہ استفسار زیر حراست اہلکار حسن بن آفتاب کی اہلیہ صائمہ حسن کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران سامنے آیا۔صائمہ حسن، جن کی نمائندگی ان کے وکیل انعام الرحیم نے کی، نے درخواست میں کہا ہے کہ فیلڈ میں 27 سال خدمار فراہم کرنے والے ان کے ریٹائرڈ فوجی افسر شوہر 19 ستمبر 2023 کو اپنی معمول کی سرگرمیوں کے لیے روانہ ہونے کے بعد گھر واپس نہیں آئے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے خاوند کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے کسی بھی الزام کی صورت میں، مذکورہ ایکٹ گرفتاری کے ساتھ ساتھ جرائم کے ٹرائل کے لیے ایک طریقہ کار فراہم کرتا ہے، لیکن حسن بن آفتاب کو ان کے خاندان اور قانونی مشیر تک بامعنی رسائی نہیں دی گئی اور انہیں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔جسٹس صداقت علی خان نے استفسار کیا کہ حسن بن آفتاب کو کب حراست میں لیا گیا؟
وکیل انعام الرحیم نے تصدیق کی کہ حسن بن آفتاب کو 19 ستمبر کو حراست میں لیا گیا اور انہیں قانون کے مطابق مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔جسٹس صداقت علی خان نے دریافت کیا کہ فوجی حکام کسی مشتبہ شخص کو غیر معینہ مدت تک حراست میں کیوں نہیں لے سکتے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے فوج کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حسن آفتاب کو بطور فوجی افسر پاکستان آرمی اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حسن آفتاب کو متعلقہ کمانڈنگ افسر کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے۔بعد ازاں جسٹس صداقت علی خان نے حسن آفتاب کے خلاف کارروائی کی تفصیلات طلب کر لیں۔ساجد الیاس بھٹی نے نشاندہی کی کہ اس افسر کے ساتھ سیکشن 73 کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے جس میں کہا گیا ہے اس ایکٹ کے تحت کوئی بھی شخص جس پر کسی بھی جرم کا الزام ہو اسے فوجی تحویل میں لیا جا سکتا ہے۔اس سیکشن کا سب سیکشن 2 کہتا ہے کہ ایسے کسی بھی شخص کو کسی بھی اعلیٰ افسر کے ذریعے فوجی تحویل میں دینے کا حکم دیا جا سکتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت ملتوی کر دی، جسٹس صداقت علی خان نے کہا کہ عدالت درخواست پر فیصلہ کرنے سے پہلے متعلقہ قانونی شقوں کا جائزہ لے گی۔واضح رہے کہ اپنے فوجی کیریئر کے دوران، حسن آفتاب نے ملک کی اہم انٹیلی جنس ایجنسی اور لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں بطور قونصلر خدمات انجام دیں تھیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد، وہ سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی، اسٹریٹجک منصوبہ بندی اور حکومتی تعلقات میں مہارت رکھنے والی کنسلٹنسی فرموں سے وابستہ رہے۔