بنگلہ دیش یک جماعتی ریاست بن چکی: نوبیل انعام یافتہ محمد یونس
بنگلہ دیش کے نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے کہا ہے کہ شیخ حسینہ حکومت کی سیاسی مخالفت کو ختم کرنے کی کوششوں کے باعث بنگلہ دیش یک جماعتی ریاست بن گئی ہے۔بدھ کو دارالحکومت ڈھاکہ کی ایک عدالت نے 16 لاکھ پاؤنڈ کے غبن کیس میں یونس اور 13 دیگر افراد پر فرد جرم عائد کی۔83 سالہ یونس اور ان کے ساتھی ملازمین نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔ مائیکرو کارڈ شروع کرنے اور سال 2006 میں نوبیل انعام جیتنے والے محمد یونس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’بنگلہ دیش میں اب کوئی سیاست باقی نہیں۔
صرف ایک پارٹی ہے جو سرگرم ہے اور ہر چیز پر قابض ہے، سب کچھ کرتی ہے، اپنے طریقے سے انتخاب کرواتی ہے۔ وہ اپنے لوگوں کو کئی مختلف طریقوں سے منتخب کرواتے ہیں– باضابط امیدوار، ڈمی امیدوار، آزاد امیدوار – لیکن سبھی ایک ہی پارٹی سے ہیں۔حسینہ واجد کو جنوری میں ایک ایسے الیکشن میں مسلسل چوتھی مدت کے لیے وزیر اعظم منتخب کیا گیا جس کا حزب اختلاف کی مرکزی جماعت نے بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ اس کی قیادت کے سینیئر ارکان کو پولنگ شروع ہونے سے پہلے یا تو جیل بھیج دیا گیا یا جلاوطنی پر مجبور کیا گیا۔پاکستان سے بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے لڑنے والی ان کی عوامی لیگ پارٹی پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ سخت قوانین نافذ کرکے اور من مانی حراستوں کے ذریعے اختلاف رائے کا گلا گھونٹ کر جنوبی ایشیائی ملک کو آمریت کی طرف لے جا رہی ہے۔
بیرون ملک سے بھی اس کی مذمت کی گئی ہے اور امریکہ نے حسینہ واجد کی حکومت پر ’جمہوری انتخابی عمل کو کمزور‘ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔محمد یونس، جنہوں نے دیہی غریبوں کو 80 پاؤنڈ سے کم کے چھوٹے قرضے دے کر لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے میں مدد کی، کے 2007 میں ایک سیاسی جماعت قائم کرنے کے منصوبے سے حسینہ حسینہ ناراض ہو گئی تھیں۔اس کے بعد سے انہیں متعدد الزامات کے ساتھ ساتھ قید کا بھی سامنا کرنا پڑا، جن میں سے حالیہ مئی میں انتخابات سے چند دن پہلے لگے تھے جب انہیں لیبر قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا۔محمد یونس کو مجموعی طور پر 100 سے زیادہ مقدمات کا سامنا ہے، جنہیں انہوں نے ’بہت کمزور، من گھڑت کہانیاں‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
گذشتہ برس 170 سے زائد عالمی رہنماؤں اور نوبیل انعام یافتہ شخصیات نے حسینہ واجد پر زور دیا تھا کہ وہ یونس کے خلاف قانونی کارروائی معطل کر دیں۔حکومت نے اس بات کی تردید کی ہے کہ محمد یونس کے خلاف کارروائی کا تعلق وزیر اعظم کے ساتھ ان کے سرد مہری والے تعلقات سے ہے۔
حسینہ واجد نے 2011 میں یونس کو غریبوں کا ’خون چوسنے والا‘ قرار دیا تھا۔بنگلہ دیش کے وزیر قانون انیس الحق نے کہا کہ وہ حکومت کے بارے میں یونس کے بیان سے متفق نہیں اور انہیں ملک کے عوام کی توہین قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اس ملک میں جمہوریت مکمل طور پر فعال ہے۔انیس الحق نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں۔ ’وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں گئے ہیں جس نے ان کے خلاف فیصلہ دیا۔محمد یونس نے پوچھا کہ کیا کسی شہری کا سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کرنا جرم ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ خیال 10 ہفتوں کے اندر ہی ترک کر دیا کیونکہ انہیں احساس ہوا کہ وہ سیاست کے لیے موزوں نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ’دوبارہ شروع کرنا بہت تکلیف دہ ہوگا کیونکہ ہم اسے ایک ایسے مقام پر لے آئے ہیں جہاں یہ مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔