اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم سے عالمی سطح پر تنہائی کا شکار
اسرائیل کو غزہ میں جرائم پر مبنی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے۔
دنیا کے 140 سے زیادہ ممالک فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں، جن میں اسرائیل کے اتحادی یورپی ممالک بھی شامل ہیں، عالمی عدالتِ انصاف اسرائیل کو جنگ روکنے کا حکم دے چکی ہے جس پر اس نے ابھی تک عمل نہیں کیا، اب اسپین نے عالمی عدالت میں یہ درخواست دائر کی ہےکہ وہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کے مقدمے میں جنوبی افریقہ کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے، عالمی عدالت انصاف کی حکم عدولی نے اسرائیل کیلئے مذمت کا دروازہ کھول دیا ہے، امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ کوئی ملک اس بابت نرم رویہ رکھنے سے قاصر ہے، عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں ان ملکوں اور گروپوں کی فہرست جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو جنگ کے دوران بچوں کے خلاف جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں، اقوام متحدہ کی اس فہرست میں اسرائیل کو بھی شامل کیا گیا ہے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل مندوب گیلاد اردان نے جمعہ کو اس فہرست میں اسرائیل کا نام بھی شامل کرنے پر عالمی ادارے کی اس رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا ہے، ایک ذریعے کے مطابق جون کے آخر میں شائع ہونے والی فہرست میں حماس اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم اسلامی جہاد کے نام بھی اس فہرست میں شامل کئے گئے ہیں ، انسانی تاریخ میں غیرجانبداری برقرار رکھنے کا منفی طرز عمل قاتل اور مقتول کو ایک صف میں کھڑا کردیتا ہے اسے جدید تاریخ میں بیلنس کرناکہا جاتا ہے، کوئی جدید تاریخ کے علمبرداروں سے پوچھے کہ حماس یا اسلامی جہاد نے بچوں کو نشانہ بنایا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانے والے اور مصلوب ہونے والے ایک ہوسکتے ہیں۔
حماس اور اسلامی جہاد دونوں کو ہی امریکہ اور یورپی یونین کے بعض ممالک دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کر چکے ہیں، غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ اب نویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے، حماس کے زیرِ اتنظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک ہر 20 میں سے ایک فلسطینی ہلاک یا زخمی ہو چکا ہے اور غزہ کی پٹی کی 24 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر بے گھر ہو چکے ہیں اور وہ پناہ اور خوراک کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں اور دوسری طرف تل ابیب میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کی سربراہی میں جنگی کابینہ شدید اختلافات کا شکار ہوگئی ہے، کابینہ میں شامل شدت پسند صیہونی فلسطینی مزاحمت کےہر نقطے کو مٹانے پر بضد ہیں اور اس مذموم عزم سے قبل جنگ میں کوئی وفقہ نہیں چاہتےہیں، اسرائیل کی جنگی کابینہ کے شدت پسند یہودیوں کے نمائندہ بینی گانٹز حماس کیساتھ مستقل جنگ بندی کے مخالف کررہے ہیں اور وہ حماس کی قید سے اسرائیلیوں کی رہائی کیلئے ہر قدم اٹھانے کی حمایت کرتا ہے، انہی شدت پسند یہودیوں کی جانب سے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانات بھی سامنے آچکے ہیں، اسرائیلی کی داخلی سیاست نے بھی غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کو مزید پیچیدہ بنادیا اور جنگ بندی کے عمل کو الجھا دیا ہے، اُدھر چین اور روس نے غزہ میں جنگ بندی کے لئے امریکی مسودے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، دونوں ممالک کے پاس سکیورٹی کونسل میں کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرنے کا اختیار ہے، سلامتی کونسل کے واحد عرب رُکن الجیریا بھی اس مسودے کو آگے بڑھانے کے لئے تیار نہیں ہے، روس کی جانب سے دی گئی تجاویز میں کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں ہونے والی جنگ بندی کو دوسرے مرحلے کے لئے بات چیت مکمل ہونے تک جاری رکھا جائے۔
پندرہ رکنی کونسل سے قرارداد کی منظوری کے ذریعے امریکہ اس منصوبے کے لئے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو غزہ میں آٹھ ماہ سے جاری جنگ کے خاتمے کی طرف اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے، اقوامِ متحدہ کے اعلی ترین سفارتی فورم سلامتی کونسل میں کسی قرارداد کے پاس ہونے کے لئے اس کے حق میں کم از کم نو ووٹوں اور امریکہ، فرانس، برطانیہ، چین یا روس کی طرف سے ویٹو سے بچنے کی ضرورت ہوگی، تاہم فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کا کہنا ہے کہ غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیل کی جانب سے طاقت کےبڑھتے ہوئے رجحان کو حماس کیلئے دباؤ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ناجائز شرائط پر جنگ بندی معاہدہ تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا،جنگ بندی معاہدہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب اس میں فلسطینیوں کے مفادات کا خیال نہ رکھا گیا ہو، ھنیہ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا اگر قابض اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے اپنی شرائط ہم پر مسلط کر سکتا ہے تو یہ اس کی بڑی بے وقوفی ہے، جنگ بندی کی کوششوں کے دوران اسرائیل کی داخلی سیاست امن کی کوششوں کو سنگین بنانے کیساتھ ساتھ جنگ کی کڑواہٹ ختم کرنے میں رکاوٹ ہے لہذا امریکہ شدت پسند یہودی قوتوں کو لگام دینے کیلئے عملی قدم آگے بڑھائے ناکہ حماس کو ناجائز شرائط ماننے پر مجبور ر کرئے اور یہی پائیدار امن کا راستہ ہموار ہو سکے۔