النصیرات کیمپ میں قتل عام "بائیڈن” کے لئے رسوائی کا باعث ہے، سینئر عرب تجزیہ کار

4769633.jpg

خطے کے اسٹریٹجک امور کے تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے روزنامہ رائ الیوم میں اپنے نئے مضمون میں النصیرات کیمپ میں صیہونی رجیم کے حالیہ جرائم کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ غزہ میں بندرگاہ کے قیام کے حوالے سے امریکہ کے عزائم کے بارے میں حماس کے خدشات درست تھے، یہ عارضی پورٹ بائیڈن کی جانب سے اسرائیلیوں کے لئے فوجی حمایت کا حصہ تھی، صیہونی رجیم نے اپنے چار قیدیوں کو چھڑانے کے لئے 210 فلسطینی شہید کئے۔

عطوان نے مزید کہا کہ جب امریکی صدر جو بائیڈن غزہ میں جنگ بندی کے لیے اپنا روڈ میپ پیش کرتے ہوئے مصر اور قطر سمیت عرب ثالثوں کی کوششوں سے حماس پر دباؤ بڑھا رہے تھے تو وہ صیہونی رجیم کے اس منصوبے سے بخوبی واقف تھے۔

النصیرات میں قتل عام ایک ایسا وحشیانہ آپریشن تھا جسے غزہ میں جنگ بندی کے لیے حماس کے خلاف دباؤ کے طور پر استعمال کیا جانا تھا۔ دریں اثنا، امریکی چینل سی این این نے گزشتہ روز اعتراف کیا کہ اس آپریشن کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد میں ایک امریکی انٹیلی جنس گروپ نے بھی کردار ادا کیا۔

انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ یہ شہادتیں مزاحمتی گروہوں کو امریکہ اور صیہونی رجیم کے خلاف ان کے فیصلہ کن موقف سے نہیں روک سکتیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلاء اور اس علاقے کی فوری تعمیر نو کے لیے اپنی جائز شرائط منوائے بغیر صہیونی قیدیوں کو رہا نہیں کرنا چاہیے۔

عطوان نے مزید لکھا کہ اس وحشت ناک جارحیت اور 4 صہیونی قیدیوں کی رہائی کے اس آپریشن میں امریکہ کی رسوا کن شمولیت غزہ جنگ کے ایک نئے دور کی نشاندہی کرے گی جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی نوجوان مزاحمت کی صفوں میں شامل ہوں گے اور صیہونی رجیم کے ساتھ محاذ آرائی کے لئے میدان میں اتریں گے اور غزہ کی نسل کشی کے خلاف مزاحمت کے اہداف کو آگے بڑھائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آپریشن کو غزہ اور مغربی کنارے کے مزاحمتی گروپوں کے ساتھ ساتھ یمن، لبنان اور عراق میں حمایتی محاذوں کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

نیتن یاہو ہو سکتا ہے کہ امریکیوں کی مدد سے چار اسرائیلی قیدیوں کو چھڑانے میں کامیاب ہو گئے ہوں لیکن ان کی یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہیں رہے گی اور آنے والے دنوں میں انہیں مزاحمتی گرویوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر سرپرائز کا سامنا کرنا پڑے گا اور غالباً غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوجائے گی یا پھر مقبوضہ علاقوں میں مزاحمتی قوتوں کا قبضہ ہو جائے گا۔

اس عرب تجزیہ نگار نے امید ظاہر کی کہ مزاحمتی قیادت بشمول یحییٰ السنوار جنگ بندی مذاکرات سے مکمل طور پر دستبرداری کا اعلان کریں گے کیونکہ ان مذاکرات کے مکروہ عمل اور پس پردہ حقیقی اہداف کا انکشاف ہو گیا ہے اور مصری حکومت کی طرف سے ان مذاکرات کے اہداف کو ظاہر کیا جا رہا ہے اور قطری ثالث بھی اس معاملے میں اپنا کردار ختم کریں گے اور اس عمل میں امریکی حکومت کی دھوکہ دہی کا اعتراف کرتے ہوئے سب کے سامنے یہ اعلان کریں گے کہ امریکہ ان مذاکرات کو غزہ میں اسرائیل کے جرائم کو چھپانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

عطوان نے اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں بن گورین، رامون اور حیفہ کے ہوائی اڈوں پر بہت سے راکٹ اور ڈرون فائر کیے جائیں گے اور غزہ میں جنگ کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے