اردن ایران تعلقات میں اہم پیشرفت

images.jpeg

حال ہی میں اردن کے ولی عہد حسین بن عبداللہ نے سعودی عرب کے چینل العربیہ نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران سے تعلقات کے بارے میں چند اہم نکات بیان کئے ہیں۔ اس انٹرویو میں اردن کے ولی عہد نے ایران سے تعلقات سمیت چند علاقائی اور بین الاقوامی ایشوز پر بھی بات چیت کی ہے۔ یاد رہے یہ اردن کے ولی عہد کا خطے کے کسی میڈیا ذریعے سے پہلا انٹرویو تھا۔ حسین بن عبداللہ نے اس انٹرویو میں پہلی بار اردن کے کچھ اندرونی اور بیرونی معاملات پر اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے اندرونی معاملات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیر و سیاحت کے فروغ پر خاص توجہ دینا چاہتے ہیں کیونکہ اس وقت یہ شعبہ ملکی معیشت کی ترقی میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نئی عالمی منڈیوں جیسے عراق اور شام میں بھی سرگرمیاں بڑھانا چاہتے ہیں۔

اردن کے ولی عہد شہزادہ حسین بن عبداللہ نے اپنے ملک کو درپیش بعض اقتصادی مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا عرب اسپرنگ کے اثرات، ہمسایہ ممالک میں جنگ اور کرونا کا بحران اردن کو درپیش اقتصادی مسائل کی اہم وجوہات ہیں۔ انہوں نے غزہ کے حالات پر بھی تبصرہ کیا اور غزہ جنگ کے بارے میں اردن کی حکمت عملی کا دفاع کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اردن نے اسرائیل کے خلاف سفارتی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ شہزادہ حسین بن عبداللہ نے کہا کہ 2002ء سے اب تک اسرائیل پر شدت پسند حکومتیں برسراقتدار آئی ہیں جبکہ دوسری طرف یہودی آبادکاروں کی تعداد بھی دو لاکھ سے بڑھ کر پانچ لاکھ تک جا پہنچی ہے۔

اردن کے کسی اعلی سطحی حکومتی عہدیدار کی جانب سے اسرائیل کے بارے میں ایسے موقف کا اظہار ایک انہونی چیز ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل سے متعلق اردن کی پالیسی میں یہ یو ٹرن اس عظیم ظلم و ستم اور ان انسان سوز جرائم کا نتیجہ ہے جو اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے گذشتہ آٹھ ماہ سے غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ نکتہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اردن کی کل آبادی کا بڑا حصہ ان فلسطینی مہاجرین پر مشتمل ہے جو صیہونی مظالم سے تنگ آ کر جلاوطنی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ لہذا اتنی بڑی تعداد میں فلسطینی مہاجرین اردنی معاشرے کی رائے عامہ تشکیل پانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گذشتہ آٹھا ماہ سے، جب سے غزہ پر صیہونی جارحیت کا آغاز ہوا ہے اردن میں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں۔

شہزادہ حسین بن عبداللہ 2009ء میں اردن کا ولی عہد بنا اور وہ اس سے پہلے سیاسی مسائل کے بارے میں واضح موقف کا اظہار کرنے سے کتراتا تھا اور زیادہ تر تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں میں مصروف رہتا تھا۔ اگرچہ گذشتہ چند سالوں کے دوران وہ میڈیا پر زیادہ آنا شروع ہو گیا تھا لیکن اب ت اس نے علاقائی سیاسی امور کے بارے میں کبھی بھی کھل کر بات نہیں کی تھی۔ العربیہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اردن کے ولی عہد حسین بن عبداللہ نے اردن اور ایران کے درمیان تعلقات پر بھی بات کی ہے۔ انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اردن، اچھی ہمسائیگی پر مبنی اصول کے تحت اسلامی جمہوریہ ایران سے اچھے اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے، کہا: "تمام امور کے بارے میں ایران اور اردن میں بات چیت کا سلسلہ جاری ہے اور انشاءاللہ یہ گفتگو نتیجہ بخش ثابت ہو گی۔”

اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں اردن کے ولی عہد کا یہ بیان تھا جسے تہران امان تعلقات میں فروغ کیلئے مثبت علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران اور اردن کے درمیان تعلقات بہت زیادہ اتار چڑھاو کا شکار رہے ہیں لیکن خطے پر حکمفرما نئی فضا میں ایسی علامات موصول ہو رہی ہیں جن سے ایران اور اردن کے درمیان تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہونے کی خوشخبری مل رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اس پیشرفت میں شہید سید ابراہیم رئیسی کی سربراہی میں موجودہ ایرانی حکومت نے بھی بہت بنیادی اور اہم کردار ادا کیا ہے۔ شہید ابراہیم رئیسی نے ایران کے صدر کے طور پر ملک کی خارجہ پالیسی کو مغرب سے ہٹا کر مشرق پر مرکوز کیا تھا اور ہمسایہ ممالک سے فروغ کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا تھا۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اردن کے ولی عہد شہزادہ حسین بن عبداللہ کے حالیہ انٹرویو کو دو پہلووں سے دیکھا جا سکتا ہے؛ ایک یہ کہ اردن کے ولی عہد نے سیاست کے میدان میں سنجیدہ قدم رکھ دیا ہے اور یہ پہلا قدم علاقائی سیاسی امور کے بارے میں سعودی عرب کے نیوز چینل العربیہ سے انٹرویو کی صورت میں اٹھایا گیا ہے۔ العربیہ نیوز چینل کو اس اہم انٹرویو کیلئے چننا بذات خود اہم نکات کا حامل ہے۔ دوسرا یہ کہ اردن نے بھی سعودی عرب کے بعد دیگر عرب ممالک جیسے بحرین اور مصر کی مانند اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ہے اور یہ بات بہت ہی نیک شگون ہے جس کے خطے اور عالمی سطح پر اہم اثرات ظاہر ہوں گے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ ایک عرصے سے ہمسایہ اور اسلامی ممالک میں باہمی اتحاد کو فروغ دینے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دے رکھا ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے