سنگ دل محبوب
بابر اعوان ملک کے نام ور وکیل‘ سیاست دان اور مذہبی اسکالر ہیں‘یہ کالم بھی لکھتے ہیں‘ میں ان کا مستقل قاری ہوں اور میں ان کا احترام بھی کرتا ہوں‘ مجھے پچھلے دنوں ان کی انقلاب فرانس سے متعلق ایک تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ بابر اعوان صاحب نے اپنی تحریر میں 1789 کے انقلاب فرانس کا ہول ناک نقشہ کھینچا‘ انقلابی کس طرح لاکھوں کی تعداد میں کنگ لوئس کے محل ’’شتوڈی ورسائی‘‘ پہنچے‘ بادشاہ کو کس طرح گھسیٹ کر پیرس شہر لایا گیا‘ وہ ملکہ میری انٹونیٹ جس نے روٹی مانگنے والے ہجوم کو کیک کھانے کا مشورہ دیا تھا‘ وہ بھی کس طرح پیرس کے چوراہے میں لائی گئی اور ہجوم نے کس طرح گلوٹین کے نیچے لٹا کر دونوں کے سر اتارے‘ بابر اعوان نے انقلاب فرانس کے دوران غریب انقلابیوں کے ہاتھوں اشرافیہ کی درگت کی پوری تفصیل بیان کی۔
یہ نقشہ اور تفصیل دونوں ہول ناک تھیں‘بابر اعوان شاید اس مثال کے ذریعے ملک کے موجودہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے ہمارے ملک میں بھی انقلاب کی کھیتی پک چکی ہے بس ایک چنگاری لگنے کی دیر ہے اور پاکستان کی اشرافیہ بھی جل کر راکھ ہو جائے گی‘ میں یہاں تک ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں‘ پاکستان میں بے شک غریب اور امیر کے درمیان کی کھائی ناقابل عبور ہو چکی ہے‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ لاقانونیت‘ ناانصافی‘ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور افراتفری نے عوام کی مت مار دی ہے اور اس کے اوپر بے تحاشا آبادی اور نوے فیصد بے ہنر لوگوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں گھٹن بھی بڑھ رہی ہے اور یہ تمام چیزیں اکٹھی ہو کر خانہ جنگی (انقلاب) کا بارود بن چکی ہیں لہٰذا کسی دن چنگاری لگنے کی دیر ہے اور یہ ملک بارود کی طرح پھٹ جائے گا۔
میں یہاں تک اتفاق کرتا ہوں لیکن جب بات انقلابیوں کی آتی ہے تو مجھے حیرت ہونے لگتی ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا پاکستان تحریک انصاف غریب پارٹی ہے؟ کیا آپ کو پارٹی کی قیادت میں کوئی غریب یا عام آدمی دکھائی دیتا ہے‘ بابر اعوان سے لے کر بیرسٹر گوہر خان تک ان میں کون غریب ہے اور کون عام ہے؟ دوسرا‘ اس ملک میں جس اشرافیہ کے خلاف انقلاب آنا چاہیے۔
ان میں سے کون سا ایسا خاندان‘ طبقہ یا گروپ ہے جس کے نمایندے اس وقت پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہیں؟ کیا اس پارٹی میں وہ سابق بیوروکریٹس اور فوجی افسر شامل نہیں ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک انقلاب کے دہانے تک پہنچا‘ کیا اس میں وہ جاگیردار‘ بزنس مین‘ صنعت کار‘ ٹھیکے دار‘ پراپرٹی ٹائیکونز‘ پیر اور سیاست دان شامل نہیں ہیں جن کی وجہ سے آج ملک سسک رہا ہے اور تیسرا سوال‘ اگر آج کی حکمران جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار یا کٹھ پتلیاں ہیں تو کیا پی ٹی آئی کی پیدائش فوج کی کوکھ سے نہیں ہوئی تھی اور کیا یہ اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی نہیں تھی؟کیا یہ حقیقت نہیں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پارلیمنٹ بھی ایک ریٹائرڈ کرنل چلاتا تھا‘ اس کا نام کرنل لیاقت تھا اور وہ نہ صرف حکومتی ارکان کو کنٹرول کرتا تھا بلکہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ’’مینج‘‘ کرنا بھی اس کی ذمے داری ہوتی تھی۔
یہ معاملہ اس قدر الجھ گیا کہ ایک دن شاہد خاقان عباسی نے ایوان میں کھڑے ہو کر مطالبہ کر دیا حکومت نے اپنے اور ہمارے لیے ایک ہی کرنل رکھا ہوا ہے اور یہ زیادتی ہے لہٰذا ہمارے لیے دوسرے کرنل کا بندوبست کیا جائے تاکہ کرنل لیاقت کا ’’ورک لوڈ‘‘ کم ہو سکے‘ اس زمانے میں وزیراعظم جہاں مشکل کا شکار ہوتے تھے یہ فوراً کہتے تھے ’’تم یہ فائل فیض کے پاس لے جاؤ‘‘ عمران خان جنرل فیض حمید کو جنرل فیض کہنا بھی پسند نہیں کرتے تھے‘ یہ انھیں صرف فیض کہتے تھے‘کیا یہ درست نہیں پارٹی کی آج کی زیادہ تر قیادت جنرل فیض کی برکت ہے‘ جنرل فیض حمید انھیں توڑ کر پارٹی میں لے کر آئے تھے اوریہ لوگ آج کل انقلاب کی قیادت کر رہے ہیں۔
دوسرا ان میں کون سا شخص انقلابی ہے؟ کیا عمر ایوب انقلابی ہیں جن کے دادا ملک کے پہلے مارشل لاء ڈکٹیٹر تھے اور ان کی پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف پاکستان ٹوٹا بلکہ انھوں نے ملک میں الیکشن میں دھاندلی کی بنیاد بھی رکھی اور یہ دھاندلی بھی کس کے خلاف ہوئی تھی؟ یہ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ہوئی تھی جو قائداعظم کی بہن تھیں اور پاکستان بنانے میں بھی ان کا بہت اہم رول تھا اور دادا حضور جاتے جاتے اقتدار ایک اور جنرل کے حوالے کر گئے تھے‘ عمر ایوب کے والد بھی پاکستان مسلم لیگ ن میں رہے‘ اسپیکر قومی اسمبلی بنے‘ وزیر خارجہ اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بنے‘ پھر وہ ق لیگ میں چلے گئے اور پھر ن لیگ میں واپس آ گئے‘ عمر ایوب خود بھی ق لیگ اور ن لیگ سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی میں آئے‘ انھوں نے ق لیگ اور ن لیگ دونوں کی طرف سے قومی اسمبلی میں بجٹ بھی پیش کیے لیکن یہ اب انقلابی ہیں اور اس انقلاب کی قیادت بھی کرنا چاہتے ہیں جس نے انقلاب فرانس کا ریکارڈ توڑنا ہے۔
آپ تھوڑا سا آگے بڑھیں بابر اعوان بھی ن لیگ سے پیپلز پارٹی میں آئے تھے‘یہ بھٹو اور زرداری فیملی کی وکالت کرتے رہے‘ پیپلز پارٹی کے وزیر قانون رہے‘ انھوں نے عدالتوں کے درجنوں فیصلوں کے باوجود آصف علی زرداری کے سوئس اکاؤنٹس سے رقم پاکستان نہیں آنے دی لہٰذا آج اگر زرداری صاحب ’’چور ‘‘ہیں تو اس کی ذمے داری بابراعوان پر بھی آتی ہے‘ یہ اس کے بعد پی ٹی آئی میں آ گئے اور یہاں ظل شاہ جیسے ورکرز جانیں دیتے رہ گئے اور ہمارے قائد انقلاب گھر میں زندگی کے سارے سکھ انجوائے کرتے رہے۔ گوہر خان بیرسٹر اور خاندانی امیر ہیں‘ مہنگے وکیل ہیں‘ دو دو کروڑ روپے فیس لیتے ہیں‘ 2008میں بونیر سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا‘ 2022 میں پارٹی میں شامل ہوئے اور انقلابی جماعت کے چیئرمین بن گئے‘ یہ آج بھی 48 سینٹی گریڈ کی گرمی میں سوٹ پہنتے ہیں‘ آج تک جیل نہیں دیکھی اور یہ اب انقلاب کی قیادت کریں گے۔
علی امین گنڈا پور کے والد فوج میں کرنل تھے‘ خاندانی رئیس ہیں‘ ڈی آئی خان میں کتنی زمین‘ جائیداد اور سرمائے کے مالک ہیں آپ وہاں کے لوگوں سے پوچھ لیں‘ کرپشن کے کتنے مقدمات ہیں اور کتنے لوگ کیا کیا کہانیاں سناتے ہیں آپ یہ بھی جا کر سن لیں لیکن اب گنڈا پور بھی قائد انقلاب ہیں‘ شیخ رشید کا پارٹی کے ساتھ اب کوئی تعلق نہیں مگر یہ بھی قائد انقلاب ہیں اور روز عمران خان کو دعوت دیتے ہیں ’’قدم بڑھاؤ عمران ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ ان کے ماضی سے بھی کون واقف نہیں؟ یہ میاں نواز شریف کی تقریر سے پہلے تقریر کیا کرتے تھے اور درودیوار ہلا دیتے تھے پھر یہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مل گئے اور یہ واحد سیاست دان تھے جو مشرف کو سید پرویز مشرف کہتے تھے‘ شیخ صاحب نے ق لیگ کے ساتھ وزارتیں انجوائے کیں‘ پیپلز پارٹی کے دور میں آصف علی زرداری کے ساتھ لنچ کیا‘ ان کی مدد سے ضمنی الیکشن جیتا اور آخر میں عمران خان کے ساتھ شامل ہو گئے‘ یہ جنرل فیض حمید سے کیا کیا مطالبہ کیا کرتے تھے اور انھیں کس عاجزی اور انکساری سے ملتے تھے۔
یہ میں آپ کو پھر کسی وقت سناؤں گا لیکن آج یہ بھی قائد انقلاب ہیں اور لطیف کھوسہ کی پوری زندگی پیپلز پارٹی میں گزری‘ یہ وزیر بھی رہے‘ مشیر بھی‘ اٹارنی جنرل بھی اور گورنر پنجاب بھی‘ یہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے وکیل بھی تھے لیکن یہ بھی اب پیپلزپارٹی کے خلاف قائد انقلاب ہیں‘ یہ فہرست صرف یہاں تک محدود نہیں‘ آپ اس میں شبلی فراز‘ سلمان اکرم راجہ‘ شاہ محمود قریشی‘ اسلم اقبال‘ فواد چوہدری اور ان جیسے درجنوں لیڈروں کو بھی شامل کر لیں‘ کیا ان کا تعلق اس اشرافیہ کے ساتھ نہیں جس کے خلاف عمران خان انقلاب لانا چاہتے ہیں اور کیا یہ اور ان کے بزرگ اس سسٹم کا حصہ نہیں تھے جس کی وجہ سے آج ملک کا یہ حال ہے‘ ان میں سے کون ہے جس کے خلاف انقلاب نہیں آنا چاہیے؟ آپ ان میں کسی شخص کا پروفائل اٹھالیں‘ یہ آپ کو اشرافیہ کا نمایندہ بھی ملے گا اور اس سسٹم کا بینی فشری بھی لیکن آپ اس کے ساتھ ساتھ بڑھکیں بھی دیکھ لیں۔
آپ کسی دن عمران خان کا اپنا پروفائل بھی دیکھ لیں‘ ان کے والداکرام اللہ خان نیازی کون تھے؟ وہ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے ملازم تھے اور ان پر دوران سروس کیا کیا الزام نہیں لگے‘خان صاحب پوری زندگی زمان پارک میں رہے جسے لاہور کی ایلیٹ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا‘ آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی اور رائل فیملی کے ساتھ وقت گزارا‘ ان کی پہلی بیگم جمائما برطانیہ کے ارب پتی جیمزگولڈ اسمتھ کی بیٹی تھی اور یہ آخر میں 300 کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔
کیا یہ اشرافیہ نہیں اور کیا ان کے اردگرد غریب لوگ ہیں اور کیا یہ ان لوگوں کے خلاف انقلاب لائیں گے؟چلیے میں یہ مان لیتا ہوں ان لوگوں کا ضمیر بیدار ہو گیا ہے اور یہ اب پورے اخلاص سے ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے ضمیر کی بیداری کے بعد ان لوگوں نے کیا کیا؟کیا انھوں نے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کیا‘ کیا یہ بڑے بڑے محلوں سے نکل کر چھوٹے گھروں میں آ گئے ہیں اورکیا عمران خان کے دور میں امیر‘ امیر تر نہیں ہوا اور کیا غریب مزید غربت کی چکی میں نہیں پسا؟ چلیے اس کو بھی چھوڑ دیجیے‘ کے پی میں آپ کی حکومت ہے۔
آپ وہاں انقلاب کیوں نہیں لاتے؟ آپ کا انقلاب صرف اسلام آباد اور پنجاب میں کیوں آنا چاہتا ہے؟ بات سیدھی اور سچی ہے‘ معاملہ صرف سنگ دل محبوب کو راضی کرنے کا ہے‘ عمران خان کی صرف ایک ڈیمانڈ ہے جنرل عاصم منیر موجودہ حکومت کے سر سے ہاتھ اٹھا کر عمران خان کے کندھے پر رکھ دیں‘ جس دن یہ ہو گیا اس دن انقلاب کا نعرہ بھی دفن ہو جائے گا اور شیخ مجیب الرحمن بھی دوبارہ غدار بن جائے گا‘ انقلاب صرف سنگ دِل محبوب ہے اور یہ بدبخت مان ہی نہیں رہا۔