ہارورڈ یونیورسٹی میں کونووکیشن تقریب میں انڈین طالبہ کا غزہ سے اظہار یکجہتی

shruti-kumar_d.jpg

گزشتہ دنوں امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں کونووکیشن تقریب کے دوران انڈین طالبہ شروتی کمار نے کلیدی تقریر میں غزہ اور غزہ کے حامیوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے افسوس ہے کہ ان حالات میں طلبہ غزہ کیلئے آواز بلند کررہے ہیں۔ اساتذہ غزہ کیلئے آواز بلند کررہے ہیں۔ لیکن ہارورڈ تک ہماری آواز نہیں پہنچ رہی ہے۔‘‘
امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والی ایک انڈین طالبہ نے غزہ پر اسرائیل کی جاری نسل کشی کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف یونیورسٹی کی من مانی کارروائی پر ہارورڈ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ شروتی کمار نبراسکا سے تعلق رکھنے والی ایک انڈین ہیں جنہیں گریجویشن مکمل کرنے والے طلبہ کے کونووکیشن کی تقریب میں کلیدی تقریر کرنے کیلئےمنتخب کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مَیں آج یہاں کھڑی ہوں لیکن مجھے اپنے اُن ساتھیوں کے بارے میں بات کرنا چاہئے، انہیں پہچان دلانی چاہئے جو یہاں نہیں ہیں۔ ۲۰۲۴ء کے بیچ سے آج میرے ۱۳؍ ساتھی فارغ التحصیل نہیں ہوں گے۔

‘‘ واضح رہے کہ ہارورڈ کرمسن کے مطابق ۱۳؍ فلسطینی حامی طلبہ کو کیمپس میں ہونے والے احتجاج میں ان کی فعال شمولیت کی وجہ سے فارغ التحصیل ہونے سے روک دیا گیا، حتیٰ کہ یونیورسٹی کے فنون اور سائنس کی فیکلٹی کی اکثریت نے طلبہ کو ڈگریاں دینے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ لیکن یونیورسٹی کی گورننگ باڈی ہارورڈ کارپوریشن نے بدھ کو ان طلبہ کو ڈگری تفویض نہ کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔

شروتی کی تقریر کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک ہزار سے زائد طلبہ نے اُن ۱۳؍ طلبہ کے ساتھ یکجہتی کیلئے واک آؤٹ کیا۔ یونیورسٹی کی جانب سے شروتی کو تقریر کی اسکرپٹ فراہم کی گئی تھی لیکن انہوں نے وہ اسکرپٹ نہیں پڑھی بلکہ اپنے گریجویشن گاؤن کی آستین سے انہوں نے ایک کاغذ کا ٹکڑا نکالا جس پر ان کے اپنے خیالات درج تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مَیں کیمپس میں اظہار رائے کی آزادی اور سول نافرمانی کے حق کیلئے عدم برداشت سے سخت مایوس ہوں۔ اس (غزہ اور غزہ حامی طلبہ کیلئے) پر طلبہ نے آواز بلند کی ہے۔ اساتذہ نے آواز بلند کی ہے۔

ہارورڈ! کیا تم ہمیں سن سکتے ہو؟‘‘ تالیوں کی گونج کے درمیان شروتی نے مزید کہا کہ ’’موسم خزاں میں، ہارورڈ میں سیاہ فام اور براؤن طلبہ کے ساتھ، میرے نام اور شناخت کو بھی عوامی طور پر نشانہ بنایا گیا۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کیلئے رنگ اور نسل نے ہماری ملازمتیں غیر یقینی، ہماری حفاظت غیر یقینی، ہماری فلاح و بہبود کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ ہم غزہ کے واقعات پر اپنی کمیونٹی میں شدید تقسیم اور اختلاف کے لمحے میں ہیں۔ میں پورے کیمپس میں درد، اضطراب اور بے چینی دیکھتی ہوں۔

لیکن اب ہم میں سے بیشتر نے ان واقعات سے نظر پھیرلینے میں عافیت جانی ہے۔ ہم نہیں جاننا چاہتے کہ نسلی طور پر نشانہ بننا کیسا ہوتا ہے۔ شاید، ہم نہیں جاننا چاہتے کہ تشدد اور موت کا سامنا کرنا کیسا ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں سب کچھ جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ یکجہتی اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ ہم کیا جانتے ہیں کیونکہ، نہ جاننا ایک اخلاقی موقف ہے۔ ہمیں صحیح اور غلط کے فرق کو سمجھ کر درست راستہ منتخب کرنا چاہئے۔‘‘ واضح رہے کہ شروتی اُن طلبہ کو غزہ کے واقعات اور غزہ کیلئے جن طلبہ نے آواز بلند کی تھی، سے آگاہ کررہی تھیں، جو موجودہ حالات سے بے خبر ہیں یا بے خبری کو راہ فرار سمجھتے ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے