چین کے سکیورٹی اور مالیاتی خدشات اور شہباز شریف کا دورہ
وزیر اعظم شہباز شریف جون کے پہلے ہفتے میں چین کے تین روزہ سرکاری دورے پر جانے کی تیاری کر رہے ہیں جہاں وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے فیز کے باضابطہ آغاز کی تقریب میں شامل ہوں گے۔اگرچہ شہباز شریف چار جون کو بیجنگ پہنچ رہے ہیں لیکن ان کی آمد کی تاریخ تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔ دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ ان کا بیجنگ کا پہلا دورہ ہوگا۔
شہباز شریف کے دورے سے پہلے، پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے 13 سے 16 مئی کو چین پاکستان وزرائے خارجہ کے سٹریٹجک ڈائیلاگ کے پانچویں دور کے لیے بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔ اسی طرح منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کے وزیر احسن اقبال نے بھی شہباز شریف کے دورے کی تیاریوں کے لیے چین کا دورہ کیا اور مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) کے 13ویں اجلاس سے قبل ملاقاتیں کیں، جو 25 مئی کو عملی طور پر منعقد ہوا تھا۔
چینی فریق نے 13ویں جے سی سی اجلاس بلانے پر اصرار کیا تاکہ تصفیہ طلب معاملات طے پا جائیں اور سی پیک کے فیزII کے لیے روڈ میپ کو حتمی شکل دی جائے۔سی پیک کے پہلے مرحلے میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر توجہ دی گئی ہے، جس میں بندرگاہیں، شاہراہیں اور توانائی کے منصوبے شامل ہیں جب کہ دوسرے فیز میں صنعتوں میں تعاون اور سرمایہ کاری، پاکستان ریلوے کی مین لائن ون اور قراقرم ہائی (KKH) کی دوبارہ ترتیب شامل ہے۔جے سی سی کے 13ویں اجلاس کے دوران، ایم ایل ون منصوبے کی لاگت 10 سے کم کر کے 6.7 ارب ڈالر کر دی گئی ہے اور اسے مرحلہ وار تعمیر کیا جائے گا۔نظرثانی شدہ منصوبے کے تحت،ML-I پر رفتار کو 2015-2016 میں 260 کلومیٹر فی گھنٹہ کی اصل رفتار سے کم کر کے 120-160 کلومیٹر فی گھنٹہ کر دیا گیا ہے۔ نظرثانی شدہ ML-I منصوبے کو سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (CDWP) نے منظور کر دیا ہے اور اسے منظوری کے لیے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ECNEC) کو پیش کر دیا گیا ہے۔
شہباز شریف کا دورہ چین دو اہم مسائل کے گرد گھومنے کا امکان ہے، چینی کارکن اور منصوبوں کی سکیورٹی کے ساتھ ساتھ پاور پلانٹس کے قیام کے لیے 15.5 ارب ڈالر کے پاور سیکٹر کے قرضوں کی تشکل نو اور چینی انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کو 1.98 ارب ڈالر کے بقایاجات کی ادائیگی سمیت ان دو مسائل پر پیش رفت یا ان کی کمی پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے مستقبل کا تعین کرے گی۔
خیبر پختونخوا کے ضلع بشام میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینیئرز پر مارچ میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد، بیجنگ نے داسو دیامر بھاشا اور تربیلا پانچویں توسیعی پن بجلی منصوبوں پر کام عارضی طور معطل کر دیا ہے اور مقامی عملے کو فارغ کر دیا ہے۔اس حملے میں پانچ چینی انجینیئر اور ان کا مقامی ڈرائیور جان سے گئے تھے۔ اگرچہ کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم پاکستان نے افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان کے ایک دھڑے کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ خودکش حملہ آور افغان شہری تھا اور بم دھماکے کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی بھی افغانستان میں تیار کی گئی تھی۔داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینیئرز پر یہ دوسرا خودکش حملہ تھا۔ 2021 میں ہونے والے پہلے حملے میں نو چینی انجینیئر جان سے گئے تھے۔ شہباز شریف کے دورے سے قبل پاکستان نے پانچ چینی انجینیئرز کے اہل خانہ کے لیے 2.8 ارب ڈالر کی رقم کی منظوری دی ہے۔مزید برآں، بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود چینی کارکنوں کی حفاظت کو یقینی بنانے میں پاکستان کی ’ناکامی‘ سے مایوس ہوکر بیجنگ نے پاکستانی طالبان کو روکنے کے لیے کابل حکومت پر اپنا سفارتی اثر و رسوخ استعمال کیا ہے۔
تاہم، چینی کارکنوں اور منصوبوں کو سب سے بڑا خطرہ بلوچ علیحدگی پسند گروپوں، خاص طور پر بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ سے ہے، جس نے کراچی اور بلوچستان میں چینی مفادات کے خلاف زیادہ تر حملے کیے ہیں۔چینی کارکنوں اور منصوبوں کے لیے فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنانے میں پاکستان کی نااہلی کو مدنظر رکھتے ہوئے، بیجنگ نے بارہا اسلام آباد سے کہا ہے کہ وہ نجی چینی کمپنیوں کو سکیورٹی کی اجازت دیں۔ تاہم پاکستان ماضی میں ایسی درخواستوں کو مسترد کر چکا ہے۔مارچ میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد، پاکستان نے کچھ پولیس اہلکاروں کو اپنی ڈیوٹی میں غفلت برتنے پر برطرف کیا اور سی پیک سے متعلق منصوبوں کے لیے ایک نیا سکیورٹی پلان تشکیل دیا۔
اسی لیے شہباز شریف کا دورہ چین کے دوران سکیورٹی کے حوالے سے بحث حاوی رہے گی اور مستقبل میں سرمایہ کاری کا زیادہ تر انحصار سکیورٹی ماحول کی بہتری پر ہوگا۔اپنے دورے کے دوران، شہباز شیرف پاور پلانٹس کے قیام کے لیے 2015 میں لیے گئے 15.5 ارب ڈالر کے توانائی کے شعبے کے قرضوں کے لیے پانچ سال کی توسیع بھی طلب کریں گے۔ قرض کی مدت میں توسیع کی پاکستان کی باضابطہ درخواست کے لیے چینی حکومت اور آئی پی پیز کے ساتھ طویل مذاکرات کی ضرورت ہوگی۔اگر بیجنگ اور چینی آئی پی پیز قرض کی مدت میں پانچ سال تک توسیع کرتے ہیں تو قرض کا حجم 15.5 سے بڑھ کر 16.61 ارب ڈالرز ہو جائے گا، جس میں 1.11 ارب ڈالرز کا اضافہ ہوگا۔
اسی طرح، چینی آئی پی پیز کی ادائیگیاں 1.98 ارب ڈالر تک بڑھ جائیں گی اور حکومت ان ادائیگیوں کو کرنے کے لیے طے شدہ شیڈول کا اشتراک کرے گی۔حکومت کی توجہ چینی آئی پی پی ایس کے واجبات کو کم کرنے اور مستقبل میں بروقت ادائیگی کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے۔شہباز شریف کا دورہ چین ایک مشکل کام ہے اور چینی سکیورٹی خدشات اور مالی تحفظات کو دور کرنا آنے والے سالوں کے لیے پاک چین تعلقات کی سمت متعین کرے گا اور ساتھ ہی سی پیک کے دوسرے مرحلے کا تعین کرے گا۔
کالم نگار :- عبدالباسط خان