عبدالستار تھہیم اور احمد فرہاد
عبدالستار تھہیم پچھلے برس (سال 2023ء) کے دسویں مہینے اکتوبر کی 11تاریخ سے عدم پتہ ہیں۔ ابتداً اس سیلانی مزاج کامریڈ کے خاندان اور دوستوں کا خیال تھا کہ وہ حسب عادت دوچار دن کے لئے کسی دوست کا مہمان بن کر کہیں مقیم ہے چند دنوں بعد ہنستا مسکراتا ہوں آن موجود ہوگا۔ ایک قہقہہ اچھالے گا اور کہے گا ’’کامریڈ سارے کم چھوڑو سرائیکی صوبے کیتے رل مل تے جدوجہد کروں‘‘۔ وہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ دوستوں کی محفلیں، مکالماتی نشستیں، سرائیکی تحریک کے بڑھاوے کے لئے انتھک جدوجہد میں ہمہ وقت مصروف۔
11 اکتوبر 2023ء سے وہ لاپتہ ہے۔ یہ تحریر لکھتے وقت 25مئی 2024ء کی صبح ہے یعنی 7 ماہ اور 14دن ہوگئے اسے لاپتہ ہوئے۔ کوئی خیر خبر نہیں۔ اس کے خاندان اور چند ذاتی دستوں نے اپنے تئیں ہر دروازے پر دستک دی۔ فریاد کی ممکنہ مقامات پر تلاش کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کچھ بن نہیں پایا۔
گزشتہ روز امریکہ میں مقیم برادر عزیز اور سرائکی قوم پرست رہنما عبید خواجہ نے عبدالستار تھہیم کے صاحبزادے شیرباز تھہیم کی جانب سے اپنے والد کی گمشدگی بارے دیا گیا اشتہار سوشل میڈیا پر شیئر کیا اور حکم دیا کہ عبدالستار تھہیم کی گمشدگی پر آواز اٹھائی جائے ۔میں نے اس سے قبل ’’سوجھل دھرتی واس‘‘ کی ملتان میں منعقد ہونے والی چوتھی سوجھل ادبی ثقافتی کانفرنس کے دوران عبدالستار تھہیم کی گمشدگی بارے برادرم انجینئر شاہنواز خان مشوری اور ایس ڈی پی کے سربراہ رانا فرازاحمد نون سے بات چیت کی تھی دونوں عزیزوں نے نہ صرف ایک قوم پرست رہنما کی پراسرار گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا بلکہ یہ یقین بھی دلایا کہ اس معاملے کو تنظیمی سطح پر اٹھائیں گے۔
ان دوستوں کی تنظیموں نے اس حوالے سے آواز بھی بلند کی مگر ابھی یہ ساری آوازیں ان کی سماعتوں پر دستک نہیں دے پائیں جو عبدالستار تھہیم کی تلاش میں بھرپور مدد کرسکتے ہیں۔ عبدالستار تھہیم سے ہماری 1980ء کی دہائی کے ان برسوں سے شناسائی ہے جب ہمارے مرحوم دوست بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ نے پاکستان سرائیکی پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ملتان ہائیکورٹ کے عقب والی شاہراہ پر سرائیکی پارٹی کا مرکزی دفتر قائم ہوا اس دفتر کے ابتدائی برسوں میں جو احباب مستقل طور پر وہاں موجود ہوتے تھے ان میں دیگر کے علاوہ اسد لنگاہ مرحوم اور عبدالستار تھہیم نمایاں تھے۔ دونوں کو ہی بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کا سایہ سمجھا کہا جاتا تھا۔
عبدالستار تھہیم ایک ترقی پسند قوم پرست رہنما کے طور پر ابھرے۔ سرائیکی پارٹی کے پلیٹ فارم اور بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کی سرپرستی ہر دو نے انہیں خوب تراشا۔ وہ بسا اوقات تند زبانی کا مظاہرہ کرکے دوستوں کو بھی گھاو لگادیتے لیکن ایک آدھ دن بعد ناراض دوست کے سر سے اس وقت تک نہ ٹلتے جب تک وہ صلح کا اعلان کرکے اسے گلے نہ لگالیتا۔اس عادت بد و نیک پر میں نے اسے کئی بار ٹوکا اس نے ہمیشہ کہا ’’یار مرشد پتہ نہیں میکوں کیا تھی ویندے‘‘خیر یہ ہم سبھی کو ہمیشہ معلوم رہا کہ انہیں کب کیا ہوجاتا ہے۔رواں صدی کی دوسری دہائی کے جو چند برس میں قادر پورراں اور پھر ملتان شہر میں مقیم رہا ان برسوں میں ہمارے محبوب ترین دوست سید حسن رضا بخاری المعروف رضو شاہ مرحوم کے حکم پر ملتان پریس کلب کے صحن میں یا پھر سنگتی منصور کریم سیال کے صاحبزادے کے ریسٹورنٹ میں جو پریس کلب کے سامنے ایک شاپنگ مال میں تھا روزانہ کی بنیاد پر خوب مجلسیں برپا ہوتیں
دوپہر دو بجے سے شام 6 بجے کے درمیان جمنے والی ان مجلسوں میں اکثر عبدالستار تھہیم بھی شریک ہوتے۔ اپنے پسندیدہ موضوعات پر اس کا مطالعہ بہت بہتر تھا۔ رضو شاہ مرحوم کو تھہیم اپنے استاد کا درجہ دیتا تھا۔ ہمارے ایک اور مشترکہ دوست اور سرائیکی کے عہد ساز شاعر اسلم جاوید اور عبدالستار تھہیم ایک ہی وقت میں جس محفل و مجلس میں اکٹھے ہوجاتے خوب دھماچوکڑی برپا رہتی۔چند برس قبل اطلاع ملی کہ عبدالستار تھہیم سرائیکی پارٹی کو خیرباد کہہ کر رانا فراز احمد نون کی سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی (ایس ڈی پی) میں شامل ہوگئے۔ فراز نون کے ہمراہ اس سے متعدد ملاقاتیں رہیں کئی برس تک ایس ڈی پی کے دفتر کے مستقل فرد کے طور پر موجود رہا۔ ایک دن کسی نے بتایا کہ عبدالستار تھہیم اپنی پارٹی بنا رہا ہے۔میں ٹیلیفون پر ان اڑتی خبروں بارے دریافت کیا تو کہنے لگا ’’مرشد سیاسی پارٹی بنانے اور چلانے کے لئے سرمایہ چاہیے یہ ہم سفید پوش خاندانوں کے چونچلے نہیں ہیں‘‘ ۔لگ بھگ چار دہائیوں سے سرائیکی قوم پرست تحریک میں فعال کردار ادا کرنے والا عبدالستار تھہیم اب سات ماہ 14 دن سے لاپتہ ہے۔ سرائیکی تحریک کے مختلف الخیال دوستوں اور تنظیموں کو اس کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانی چاہیے اس کے دل گرفتہ خاندان کی دلجوئی کرنی چاہیے یہی وسیب زادوں کا فرض ہے۔ حکومت کو بھی اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ اس کے خاندان کی دادرسی ہو۔
عبدالستار تھہیم کی طرح ایک اور شخص حال ہی میں لاپتہ ہوا ہے۔ یہ لاپتہ شخص احمد فرہاد ہے۔ باغ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والا احمد فرہاد کئی برسوں سے اسلام آباد میں مقیم ہے۔ عمومی تعارف شاعر ہونا ہے۔ ’’کافر ہوں سر پھرا ہوں مجھے مار دیجئے‘‘۔ والی مشہور زمانہ نظم نے احمد فرہاد کو چند برس قبل ملک گیر شہرت عطا کی۔
ابتداً وہ ففتھ جنریشن وار کے مجاہد رہے۔ ایسے مجاہد کہ انہوں نے ہر اس شخص کو آڑے ہاتھوں لیا جو اسٹیبلشمنٹ مخالف تھا۔ کئی برس وہ ہمارے احباب میں بھی شامل رہے پھر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہماری تحریروں اور گفتگوئوں سے ناراض ہوگئے۔عملی زندگی کے آغاز پر فوج کو نجات دہندہ قرار دیتے ہوئے اس ملک کے لبرلز، ترقی پسندوں اور قوم پرستوں کو آڑے ہاتھوں لینے والے احمد فرہاد سال 2022ء میں عمران خان کی محبت کے اسیر ہوئے پہلے وہ جتنا سخت موقف فوج مخالف طبقوں بارے رکھتے تھے اب عمران کی محبت اور فوج کی مخالفت میں اس سے زیادہ سخت موقف کا اظہار کرنے لگے۔ان کی گمشدگی کے معاملے کو آزاد کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی حالیہ تین روزہ تحریک کے دوران سوشل میڈیا پر ان کی فعالیت سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ سال بھر قبل جب عوامی ایکشن کمیٹی آزاد کشمیر قائم ہوئی وہ اس کی حمایت میں پیش پیش تھے۔احمد فرہاد نے ہی عوامی ایکشن کمیٹی کی حالیہ چند روزہ تحریک کے دوران اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر یہ خبر دی تھی کہ ’’آزاد اور ہسپتال ذرائع کے مطابق تحریک کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 13 ہے 15 شدید زخمی ہیں اور 80 مزید زخمیوں میں شامل ہیں جبکہ تین افراد کی نعشیں ان کے خاندانوں کے حوالے کی گئی ہیں‘‘۔
یہ ٹویٹ خلاف واقع تھی مگر اسی عرصے میں انہوں نے سوشل میڈیا پر تحریک کے حق میں اور حکومت و اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ڈٹ کر اپنے موقف کا اظہار کیا پھر ایک رات چند سادہ پوش انہیں اٹھالے گئے۔
شاعر و صحافی احمد فرہاد کی جذباتیت اپنی جگہ لیکن اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہواہے تو قانون پر عملدرآمد کا راستہ اپنایا جانا چاہیے انہیں باضابطہ گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے جہاں وہ اپنے وکلاء کے ذریعے اپنا مقدمہ لڑنے کا حق استعمال کرسکیں۔یہ رات کے اندھیرے میں اٹھا لے جانا کسی طور درست ہے نہ یہ افواہیں اڑانا کہ یہ نجی معاملہ ہے۔ نجی معاملے کی افواہ اڑانے والے پھر اس نجی معاملے کو سامنے لائیں
احمد فرہاد کو بازیاب کرائیں اور اغوا کاروں کو گرفتار کریں تاکہ حقیقت حال واضح ہو۔عبدالستار تھہیم ہوں، احمد فرہاد یا کوئی اور مردوزن کسی کی بھی پراسرار گمشیدگی درست قرار نہیں دی جاسکتی۔گو کہ یہ پہلے 2 گمشدہ افراد نہیں ہزاروں لوگ گمشدہ افراد کی فہرست میں موجود ہیں۔ یہ فہرست ریاست کی نیک نامی میں اضافہ ہرگز نہیں بلکہ اس سے پیدا ہونے والے عدم تحفظ کا احساس ریاست اور شہریوں کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج کو وسیع کرتا جارہا ہے۔