عالمی سطح پر تل ابیب کی بے مثال گوشہ نشینی

171138834.jpg

امریکی نیوز چینل سی این این نے حال ہی میں عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیل کو رفح میں فوجی کاروائی روک دینے کے حکم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے: "یہ مہینہ اسرائیل کیلئے ایک پرآشوب مہینہ تھا اور اس سے پہلے کبھی بھی یہودی حکومت، فلسطینیوں کے بارے میں اپنی پالیسیوں کی خاطر اس حد تک کئی محاذوں پر شدید اور پائیدار بین الاقوامی دباو کا شکار نہیں ہوئی تھی۔” یہ وہ حقیقت ہے جسے دیگر ذرائع ابلاغ نے بھی مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کا حالیہ فیصلہ، سفارتی میدان میں اسرائیل کی روز بروز بڑھتی گوشہ نشینی کو عیاں کرتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر فرینچسکا البائنر نے بھی عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔

وہ اپنے ایکس اکاونٹ پر اس بارے میں لکھتے ہیں: "اجازت دیں واضح بات کروں۔ ایسے وقت جب عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو رفح میں فوری طور پر فوجی کاروائی روک دینے کا حکم دے رہی ہے، اسرائیل اپنے حملوں کی شدت بڑھاتا جا رہا ہے۔” انہوں نے غزہ کے حالات کو "وحشت ناک” قرار دیا اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کر کے اس کے خلاف پابندیاں عائد کریں۔ فرینچسکا البائنر لکھتے ہیں: "یقین کریں، جب تک آپ اسرائیل کو مجبور نہیں کریں گے وہ اپنا پاگل پن جاری رکھے گا۔ رکن ممالک کو چاہئے کہ اس وقت تک اسرائیل سے سفارتی اور سیاسی تعلقات منقطع کر کے اس کے خلاف فوجی اور اقتصادی پابندیاں عائد کریں جب تک وہ غزہ پر جارحیت روک نہیں دیتا۔” عالمی عدالت انصاف کے 15 ججوں میں سے چار ججوں نے اپنے نوٹ میں کہا ہے کہ اس عدالت کا مذکورہ بالا فیصلہ لازم الاجرا نہیں ہے.

لیکن دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گاتریش نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رفح میں فوجی کاروائی فوری طور پر روک دینے کے حکم پر مبنی عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ لازم الاجرا ہے اور تمام فریقین پر اس کی پابندی ضروری ہے۔ گاتریش نے کہا: "عدالت کے جاری کردہ احکامات لازم الاجرا ہیں اور مجھے یقین ہے کہ فریقین عدالت کے فیصلے کی پیروی کریں گے۔” اس بات کی توقع بھی کی جا رہی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل عالمی عدالت انصاف کے حالیہ فیصلے کا جائزہ لینے کیلئے اجلاس منعقد کرے گی۔ پیشن گوئیاں بھی البائنر کے اس نقطہ نظر کی تصدیق کر رہی ہیں کہ غاصب صیہونی رژیم عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو نظرانداز کر دے گی اور امریکہ بھی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔

اس ممکنہ منظرنامے کے باوجود مبصرین کا خیال ہے کہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے مذکورہ بالا حکم جاری ہونے، جس میں آئندہ چند دنوں میں نیتن یاہو کے ورنٹ گرفتاری بھی شامل ہو سکتے ہیں، نے تل ابیب کو ہر وقت سے زیادہ عالمی سطح پر گوشہ نشینی کا شکار کر دیا ہے۔ سی این این عالمی عدالت انصاف کے مذکورہ بالا حکم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: "اسرائیل پر جنگ بند کرنے کیلئے ڈالے جانے والا دباو ہر طرف سے بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکی یونیورسٹیاں، عالمی عدالتیں، امریکہ کی معروف شخصیات، اسرائیل کے مغربی اتحادی ممالک اور حتی مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ۔ لیکن ان میں سے اہم ترین ممکن ہے وہ قانونی اور سفارتی اقدامات ہوں جو اس مہینے اسرائیل کے خلاف انجام پائے ہیں۔” سی این این کے مطابق عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلوں نے مغربی ممالک کو آزمائش میں ڈال دیا ہے اور یہ عالمی نظام سے ان کی وفاداری کا کڑا امتحان ہے.

اس مسئلے نے اسرائیل کے مغربی اتحادیوں اور ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں دنیا کے جنوبی ممالک کے درمیان روز بروز مضبوط ہوتے اتحاد کے درمیان گہری خلیج پیدا کر دی ہے۔ یاد رہے یہ ممالک آئے دن غزہ میں انجام پانے والے اسرائیلی اقدامات پر اس کے احتساب پر زور دیتے آئے ہیں۔ بظاہر یہی وجہ ہے کہ سی این این نے اس مہینے (مئی 2024ء) کو اسرائیل کیلئے ایک پرآشوب مہینہ قرار دیا ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے "عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اسرائیل کی گوشہ نشینی بڑھا دے گا” کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں لکھا ہے: "اقوام متحدہ کے ونگ کے طور پر عالمی عدالت انصاف کے حالیہ فیصلے نے اسرائیل کے خلاف سفارتی اور قانونی اقدامات کی طویل فہرست میں اضافہ کر دیا ہے جس نے عالمی سطح پر اس کی پوزیشن کمزور کر دی ہے۔” نیویارک میں اسرائیل کے سابق قونصلر جنرل، ایلن پینکاس کہتے ہیں: "یہ شمالی کوریا یا بیلاروس یا میانمار جیسی گوشہ نشینی نہیں ہے لیکن بہرحال گوشہ نشینی ہے اور شدید دباو ایجاد کرے گی۔”

واشنگٹن میں اسرائیل کے سابق سفیر اتمار ریبینووچ کہتے ہیں: "مجموعی طور پر اسرائیل کے خلاف انجام پانے والے اقدامات نہ صرف بین الاقوامی اعتبار میں کمی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ امریکہ کے اثرورسوخ میں کمی کی بھی علامت ہیں۔ کیونکہ امریکہ اپنے اتحادیوں اور عالمی اداروں کو اس بات سے روکنے میں ناکام رہا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں اس کے اصل اتحادی کو نشانہ نہ بنائیں۔ ریبینووچ اسے اس بات کی علامت قرار دیتے ہین کہ "عالمی سیاست کے قوانین تبدیل ہو چکے ہیں” اور کہتے ہیں: "باقی دنیا امریکہ پر غلبہ پانے کے راستے پر چل نکلی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو اقوام متحدہ میں شکست نہیں دے سکتے لیکن اب دو عالمی عدالتیں ہمارے ساتھ ہیں اور ہم ایسی جگہ سے تبدیلیاں لائیں گے جہاں آپ کا کنٹرول نہیں ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے