بنجمن نیتن یاہو کی بحران زدہ کابینہ

images-2.jpeg

غزہ پر غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کا آغاز ہوئے 222 دن ہو چکے ہیں اور اس دوران ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی فورسز پہلے سے زیادہ طاقتور ظاہر ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ بحران کا شکار ہے اور اس بحران کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کابینہ شدید اندرونی اختلافات کا شکار ہے اور اور ان اختلافات کی شدت میں بھی ہر روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ کہیں فوج غزہ میں فوجی کاروائی جاری رکھنے کا انکار ہی نہ کر دے اور اس بارے میں اس کی حکم عدولی شروع کر دے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ دیگر کئی شعبوں میں بھی بری صورتحال کا شکار ہے اور روز بروز اس کی امیدیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔

فلسطین میں اسلامی مزاحمتی فورسز کی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ، امریکہ سمیت دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اور مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں زور پکڑتی طلبہ احتجاجی تحریک، خود مقبوضہ فلسطین میں صیہونی حکومت کے خلاف روز بروز شدت اختیار کرتا عوامی احتجاج اور اقوام متحدہ میں فلسطین کو مکمل رکنیت عطا کئے جانے کی منظوری، ان بے شمار اسباب میں سے چند ہیں جن کی وجہ سے ان دنوں بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ بحرانی ترین حالات سے روبرو ہو چکی ہے۔ ایسے حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی مزاحمت نے مختلف محاذوں پر جدید فوجی ہتھیار بروئے کار لانا شروع ہو چکے ہیں جو صیہونی رژیم کی کمزوری اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔

مثال کے طور پر چند ہی دن پہلے حزب اللہ لبنان نے صیہونی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے

کیلئے ایک ایسے ڈرون طیارے کا استعمال کیا جو خودکش ہونے کے ساتھ ساتھ ہوا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں سے بھی لیس تھا۔ اس اقدام نے غاصب صیہونی رژیم کو حیرت زدہ اور پریشان کر دیا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان نے صیہونی فوج کی حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے میں بھی اپنی خاص فوجی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے جس کے باعث نیتن یاہو کی کابینہ شدید تشویش کا شکار ہو گئی ہے۔ دوسری طرف یمن میں انصاراللہ کے حوثی مجاہدین بھی روزانہ کی بنیاد پر غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کے خلاف فوجی کاروائیاں انجام دینے میں مصروف ہیں۔ وہ صیہونی بندرگاہوں کی جانب جانے والے بحری جہازوں کو نت نئے ہتھیاروں اور میزائلوں سے نشانہ بنا رہے ہیں۔

غزہ جنگ کے بعد انصاراللہ یمن نے اسرائیلی اور اس کے حامی ممالک کے بحری جہازوں کے خلاف بعض ڈرون طیارے اور میزائل ایسے استعمال کئے ہیں جو اس سے پہلے کہیں استعمال نہیں کئے۔ انصاراللہ رہنماوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر اسرائیل نے رفح پر زمینی حملہ کیا تو مزید ایسے نئے میزائل بروئے کار لائے گا جو اب تک استعمال نہیں کئے گئے۔ لہذا اگرچہ لبنان اور یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے صرف وہی نیتن یاہو کی کابینہ کو مایوس کرنے کیلئے کافی ہے لیکن صیہونی حکمرانوں کو خوفزدہ کرنے کے مزید اسباب بھی پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی مزاحمتی گروہ مقبوضہ فلسطین میں ایسی ایسی صیہونی حساس تنصیبات کو نشانہ بنا رہی ہیں جو انتہائی خفیہ ہیں اور انہیں اب تک منظرعام پر نہیں لایا گیا اور حتی تل ابیب اور ایلات بندرگاہ کو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

مزید برآں، جو چیز غاصب صیہونی کابینہ کو مزید پریشان اور مایوس کر رہی ہے وہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں زور پکڑتی اسرائیل مخالف طلبہ احتجاجی تحریک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک مغربی حکمرانوں کو اسرائیل مخالف فیصلے کرنے پر بھی مجبور کر سکتی ہے۔ صیہونی حکمرانوں کیلئے پریشان کن امور میں سے ایک اقوام متحدہ میں فلسطین کو مکمل رکنیت عطا کئے جانا ہے۔ لہذا مذکورہ بالا مسائل کے باعث نیتن یاہو کی سربراہی میں صیہونی کابینہ غزہ جنگ ختم کرنے یا جاری رکھنے کے فیصلے میں شدید کنفیوژن کا شکار ہے۔ نیتن یاہو اور اس کے ساتھیوں کے پاس جنگ جاری رکھنے اور رفح پر زمینی حملہ کرنے کا کوئی راستہ نہیں پایا جاتا جس کے باعث وہ اپنی جنگی مشینری کو مزید بروئے کار نہیں لا سکتے۔ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین کے اندر جاری احتجاج اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اب تل ابیب میں اسرائیلی پرچم جلائے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں انتہاپسند صیہونی حکمرانوں کی پسپائی کی توقع کی جا رہی ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے