نیلی قمیض اور سفید کبوتر!
سیاست کے افق پر چمکتے ہوئے ستارے اپنی اپنی تقدیر آزما رہے ہیں، ہر کوئی اپنی ہی گردش میں ہے۔ حالات کا گول چکر یا تو رفتار بدلتا ہے یا کردار۔ کوئی کرسی پر ہے تو کوئی کٹہرے میں۔۔۔ کوئی معتوب ہے تو کوئی سرخرو۔گذشتہ ہفتے دو اہم سیاسی رونمائیاں ہوئیں۔ عمران خان سپریم کورٹ میں حاضر ہوئے اور آب و تاب سے بغیر گویائی سیاسی منظر نامے پر حاوی رہے۔ لیپ ٹاپ پر نظر آنے والے سابق وزیراعظم عمران خان کی نیلی قمیض نے عدالت پر خوشگوار اثر چھوڑا۔ کسی ماہر نے تبصرہ کیا کہ نیلا رنگ سکون اور اعتماد کی علامت ہے تو کوئی گویا ہوا کہ مناسب اور موثر ہونے کی نشانی۔
بہرحال عاشقوں نے جھوم جھوم کر نیلے رنگ کو سراہا اور مکمل اظہار یکجہتی بھی کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مداحوں نے قمیض کے اوپر چہرے کو مکمل نظرانداز کیا اور کمال مہارت سے موضوع بحث نیلی قمیض ہی کو رکھا۔سماعت براہ راست تو کیا ریکارڈڈ بھی نہ دکھائی جا سکی اور عمران خان کو دیکھنے کی متلاشی نگاہیں مایوس رہیں۔ نیب ترامیم کے کالعدم ہونے سے متعلق اپیل کی سماعت کے چند لمحے بعد ہی تصویر منظر عام پر آ گئی۔ گذشتہ اگست سے لے کر اب تک یہ سب سے بڑی سیاسی رونمائی تھی۔
جس کسی نے بھی تصویر عام کرنے کا منصوبہ بنایا بہرحال وہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہا۔ عمران تندرست ہیں اور مطمئن بھی۔ پس منظر دلچسپ تھا اور پیش منظر پرامید۔ سماعت روح افزا اور مناظر پرلطف۔منظر عام پر آنے والی تصویر اور عظمی پر پڑنے والے اثرات فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کی توہین عدالت کی صورت ظاہر ہوئے۔یہ رونمائی کرشماتی تھی یا نہیں تاہم طلسماتی ضرور تھی اور طلسم ہوشربا کے ممکنہ شکار وہ دو پارلیمینٹیرنز ہیں جن کا تعلق بظاہر ’طاقتور حلقوں‘ سے ہے۔ جن کی پہچان اور شناخت کو ’پراکسی‘ کہا گیا ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ توہین دو پارلیمنٹیرینز کی جانب سے ایک ہی وقت میں ایک جیسے سوالات اور بیانات دینے کے باعث ہوئی ہے۔ اب ان کے ذریعے کیا پیغام دیا جائے گا یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں یہ واقعہ خود ایک ایسا پیغام ہے جو آنے والے دنوں میں توہین عدالت کی کارروائی کے کئی دروازے کھول سکتا ہے، بہرحال فلم ابھی باقی ہے۔
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
دوسری سیاسی رونمائی میاں نواز شریف کی آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد اب ہوئی۔ اس سے قبل 23 اکتوبر کو پاکستان واپسی پر ہاتھ پر بیٹھے سفید کبوتر کے ذریعے نواز شریف نے کچھ اور پیغام دیا تھا لیکن ایک بار پھر میاں صاحب پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ’مجھے کیوں نکالا‘ کی اگلی قسط میں پچھلی جھلکیاں پیش کرتے دکھائی دیے۔لندن پلان کی قسط نمبر دو کے کیسٹ کی ریل وہیں پھنسی ہے جہاں 2018 میں رکی تھی، البتہ اس قسط میں ججوں کے نام موجود ہیں جبکہ جرنیلوں کے نام فراموش ہو چکے ہیں۔نواز شریف ناخوش ہیں، مایوس ہیں، پریشان ہیں، روٹھے ہوئے ہیں۔ تبصرہ نگاروں کے یہ سب جملے نظر سے گزرے تو تاریخ کے جھروکوں میں کوئی ایسا راہنما نظر نہیں آیا جو دلگرفتہ، پریشان اور قوم سے ناراض ہو۔ رہنما مایوس نہیں ہوتے امید دیتے ہیں، ناراض نہیں ہوتے درگزر کرتے ہیں۔ پریشان نہیں ہوتے بلکہ راستہ ڈھونڈتے ہیں۔لگتا یوں ہے کہ راستہ رہنما سے خود منزل کا پوچھ رہا ہے اور رہنما کہیں کھو گئے ہیں۔
پاکستان کے عوام نیلی قمیض اور سفید کبوتر سے آگے سوچنا چاہیں بھی تو کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ ’کیوں نکالا‘ اور ’کیوں نہ بچایا‘ کے شکووں سے آگے کیا ہے؟عمران خان ہوں یا نواز شریف قوم سے پورا سچ کیوں نہیں کہتے؟ اپنے حصے کا مکمل سچ کہیں تاکہ نظام آگے بڑھے۔