انڈیا میں عام انتخابات: اقلیتوں کی رائے کیا ہے؟

DELHI_INDIA_ELECTION_MINORITIES_PERSPECTIVE.00_05_00_12.Still009.jpg

انڈیا میں عام انتخابات جاری ہیں۔ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی مسلسل تیسری بار حکومت بنانے کے لیے چار سو سے زائد نشستیں حاصل کرنے کا دعوٰی کرتی ہے جو ایک مکمل اکثریت ہے۔دوسری جانب انڈیا میں اقلیتی طبقات ملک میں اپنے مستقبل کے لیے خوفزدہ ہیں۔حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان انتخابات میں بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کو شکست دینے کے لیے ایک بڑا اتحاد تشکیل دیا ہے۔

تاہم بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے اقدامات کے پیش نظر بی جے پی کی حکومت بننے کا امکان کافی زیادہ ہے۔این ڈی اے اور بڑا اتحاد جس کا نام ’انڈیا‘ رکھا گیا تھا، دونوں نے کل 543 نشستوں میں سے زیادہ سے زیادہ نشستوں پر امیدواروں کا اعلان کیا ہے۔بی جے پی نے آسام، بہار، لکشدیپ اور کیرالہ سے صرف چار مسلمان امیدواروں کو نامزد کیا ہے۔

اسی دوران انڈیا بلاک نے 34 مسلم امیدواروں کو نامزد کیا ہے۔ دہلی کانگریس کے ترجمان ڈاکٹر انیت سنگھ نے کہا کہ بی جے پی منحرف سیاست کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس لوک سبھا انتخابات میں کوئی مسلمان امیدوار نہیں ہے۔

انیت سنگھ نے ہمارے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بی جے پی آبادی کے تناسب کی بنیاد پر اپنا فیصلہ کرتی ہے کیونکہ انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 20 فیصد ہے، جبکہ وہ ہندو ووٹ بینک کے 80 فیصد حصے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔وہ ہندو ووٹ بینک پر اعتماد کر رہے ہیں لیکن اب عوام جاگ گئے ہیں۔ اب وہ ترقی کے لیے ووٹ دیں گے۔ اس بار’اب کی بات، 400 پار‘ کا نعرہ نہیں چلے گا۔

اقلیتی نمائندوں نے حکمران بی جے پی کے ارادوں کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے ہیں، جس پر طویل عرصے سے اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔بی جے پی کے بہت سے رہنما ہندو مذہب کی بنیاد پر چلنے والے ملک ہندو راشٹر کی وکالت کرتے رہے ہیں۔دہلی سے تعلق رکھنے والے وکیل سیف الاسلام نے بتایا کہ ’مسلمان اس بار خوفزدہ نہیں ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ اس الیکشن میں بی جے پی کو شکست دینا۔

سیف الاسلام نے بتایا کہ ’انڈیا جیسے ملک میں مسلمانوں کی کئی ریاستوں میں مختلف سیاسی حکمت عملی ہوتی ہے۔ مسلمان ہندوستان کی اتحادی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں اور کچھ ریاستوں میں زعفران پارٹی کی طرف سے مسلم مخالف تقریر کے باوجود بی جے پی کی قیادت والی جماعتوں کو بھی ووٹ مل رہے ہیں۔‘
بی جے پی کے پاس بھی ایسے کچھ مسلمان کارکنان ہیں جس کی وجہ سے کچھ فیصد ووٹ بی جے پی کے حق میں جاتے ہیں۔سیف الاسلام کا مزید کہنا تھا کہ ’سی اے اے اور این آر سی کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے۔ 2022 کے انتخابات میں ایک بھی انتخابی بوتھ ایسا نہیں تھا جہاں بی جے پی کو چالیس پچاس مسلمانوں کے ووٹ نہیں ملے اور یہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس نے کم از کم دو تین لاکھ روپے خرچ کیے۔

’بی جے پی جانتی ہے مختلف ذاتوں کے لوگ جیسے راجپوت دلت وغیرہ کے لوگ اس سے خوش نہیں۔ وہ جانتے ہیں بیس سے تیس ہزار مسلم ووٹرز ان کی جیت یقینی بنائیں گے۔ کچھ سال پہلے تک بی جے پی کی کابینہ اور پارلیمنٹ میں مسلم نمائندے شامل تھے۔ پچھلے چند سالوں میں مسلمانوں پر مختلف چارجز جیسے یو اے پی اے اور این ایس اے چارجز لگانے سے خوف کا احساس پیدا ہوا۔‘ان کے مطابق ’ضمنی الیکشن 2018 میں بہار کے ادھیال ضلاع میں کئی مسلمان شہریوں کو نعرے لگانے کی جعلی دفعات میں گرفتار کیا گیا۔ یہ سب باتیں مسلمانوں کے لیے ہچکچاہٹ کی سبب بنیں اور انہیں خاموش کراتی ہیں۔‘

سیف نے کہا کہ بی جے پی کا نعرہ ’اب کی بار، 400 پار‘ ایک حکمت عملی کا نعرہ ہے۔ جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی آئین میں ترمیم کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے انہیں مکمل اکثریت کی ضرورت ہے۔سیف کا خیال ہے کہ ’بی جے پی کا مقصد آئین سے سیکولر لفظ کو ہٹانا ہے اور وہ اس نعرے ’اب کی بار 400 پار‘ کے ذریعے ایک تاثر پیدا کر رہے ہیں۔

مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے دہلی کے شہری بینیٹ فرانسیس نے نمائندہ کو بتایا کہ ان کے خیال میں انڈیا میں مسیحی بھی محفوظ نہیں ہیں۔بینیٹ فرانسیس کہتے ہیں کہ ’ہم خوش نہیں ہیں۔ ہمارے لیے یہاں کوئی سیکورٹی نہیں ہے، ہمارے گرجا گھروں پر دن رات حملے ہو رہے ہیں اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ حملوں میں ملوث ہیں، انہیں حکومت کا تحفظ حاصل ہے۔بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہماری برادری پر حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے‘

ان کے مطابق ’ہندو راشٹر یعنی ہندو ملک بنانے کی باتیں چل رہی ہیں، ہمارے آباؤ اجداد نے ملک کے لیے جدوجہد کی اور سب کو مساوی جگہ فراہم کی۔’حکومت کو مذہب میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے بلکہ انہیں قوم کو آگے لے جانے کے لیے ترقیاتی کاموں پر توجہ دینی چاہیے۔‘

دہلی میں قائم یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) نے دسمبر 2023 میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کی 23 ریاستوں میں مسیحیوں کے خلاف 687 تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔رپورٹ کے مطابق 2014 میں مسیحیوں کے خلاف تشدد کے کم از کم 147 واقعات پیش آئے۔ 2015 میں ان کی تعداد 177 تھی اور ہر برس اس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے