مخصوص نشتوں کاکیس:سپریم کورٹ نے پشاورہائیکورٹ کافیصلہ معطل کردیا

2586362-supremecourt-1704354175-137-640x480.jpg

سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پشاور ہائی کورٹ کا سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کی نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔آج سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’ہمیں عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کرنی ہے، اصل مسئلہ عوامی مینڈیٹ ہے، قانون میں کہاں لکھا ہے کہ بچی ہوئی نشتسیں دوبارہ ان ہی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی؟ اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 51 کی تشریح کے لیے لارجر بینچ کی تشکیل کی استدعا کی تو عدالت نے کیس لارجر بینچ کے لیے کمیٹی کے سامنے رکھنے کی ہدایت کر دی اور کیس کی سماعت تین جون تک ملتوی کر دی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ’تین جون سے کیس روزانہ کی بنیاد پر سنیں گے۔

مخصوص نشستوں کی بنیاد پر ہونے والے الیکشن اور قانون سازی کا کیا ہو گا؟

سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ ممبران کے اب تک ڈالے گئے ووٹ اور قانون سازی میں رائے معطل تصور نہیں ہو گی۔ سپریم کورٹ کے حکم کا اطلاق ماضی سے نہیں بلکہ آج سے ہوگا۔ آج سے تین جون کے درمیان کوئی ان مخصوص نشستوں کے ووٹ سے کوئی نئی قانون سازی نہیں سکتی۔جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل ہیں۔الیکشن کمیشن نے ایس آئی سی کو مخصوص نشتیں نہ دینے کا فیصلہ دیا تھا جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ایس آئی سی نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ جبکہ سپیکر کے پی نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ’پی ٹی آئی کے آزاد جیتے ہوئے اراکین اسمبلی نے ایس آئی سی میں شمولیت اختیار کی۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’سات امیدوار تاحال آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا حصہ ہیں؟ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ ’کیا پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’آزاد اراکین کو کتنے دنوں میں کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے؟

فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ’آزاد اراکین قومی اسمبلی کو تین روز میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمانی جماعت بن سکتی ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہ لے اور آزاد جیتے ہوئے اراکین اس جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے نکتہ اٹھایا کہ ’سیاسی جماعتوں کے درمیان مخصوص نشستوں کی تقسیم کس فارمولے کے تحت ہوتی ہے، سیاسی جماعت کیا اپنی جیتی ہوئی سیٹوں کے مطابق مخصوص نشستیں لے گی یا زیادہ بھی لے سکتی ہے؟‘

فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ’کوئی سیاسی جماعت اپنے تناسب سے زیادہ کسی صورت مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی، پی ٹی آئی کے ازاد جیتے ہوئے اراکین اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’جمہوریت کا ایک اصول متناسب نمائندگی ہے، یعنی جتنی نشستیں کسی جماعت کی ہوں گی، اسی تناسب سے اسے مخصوص نشستیں ملیں گی۔‘ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ’خیبرپختونخوا اسمبلی میں جمیعت علمائے اسلام کی سات جنرل نشستیں ہیں جبکہ ان کو 10 مخصوص نشستیں دی گئی ہیں، پیپلز پارٹی کو چار جنرل نشستوں پر 6 جبکہ مسلم لیگ ن کو 6 جنرل نشستوں کے مقابلے میں 8 مخصوص نشستیں دی گئی ہیں۔‘

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے وفاقی حکومت کے نمائندے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ ’سنی اتحاد کونسل کو صرف اس وجہ سے نشستیں نہیں ملیں کہ اس نے ان کے لیے اپلائی نہیں کیا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ ’ہمیں ابھی نوٹس جاری نہیں ہوا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’سیاسی جماعت کو اتنی ہی مخصوص نشستیں مل سکتی جتنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے ان کی بنتی ہیں، قانون میں یہ کہاں لکھا ہے کہ انتخاباتی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟ اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے تو کیا اس کے امیدوار نمائندگی کے حق سے محروم ہو جائیں گے؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ ’جی یہی سوال لے کر الیکشن سے قبل میں عدالت گیا تھا۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن ارکان کو فوری طور پر طلب کر لیا۔ الیکشن کمیشن حکام کو ریکارڈ سمیت حاضر ہونے کی ہدایت کر دی۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے