روسی جاسوس روڈولف ایبل کی کہانی اسکی زبانی

291651328e4ea2a.jpg

آپ میں سے بہت لوگوں نے اسٹیون اسپیل برگ کی 2015ء کی ایوارڈ یافتہ فلم بریجز آف اسپائیز (Bridge of Spies) دیکھ رکھی ہوگی جس میں دو بار آسکر یافتہ اداکار ٹام ہینکس نے جیمز بی ڈونوین کا کردار ادا کیا ہے۔ سرد جنگ کے عروج کے دوران جمیز ایک روسی جاسوس کے بدلے دو امریکی شہریوں کو واپس لانے میں وکیل کا کردار ادا کرتا ہے لیکن بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ ٹام ہینکس کا کردار فکشنل نہیں بلکہ دراصل فلم کی کہانی حقیقی واقعات پر مبنی تھی اور اس تبادلے پر غور کرنے سے پہلے ہی بہت سے معاملے طے کرلیے گئے تھے۔

سیسل کوہنے کی کتاب کے جی بی مین، سرد جنگ کے سب سے بدنام سوویت ایجنٹ اور فلم بریجز آف اسپائیز میں تبادلہ کیے جانے والے ایجنٹ کے گرد گھومتی ہے۔ وہ نہ صرف اس ایجنٹ کے پورے کیس کے بارے میں بتاتے ہیں بلکہ روسی جاسوس روڈولف ایبل کی گرفتاری اور مقدمے کی بھی بات کرتے ہیں جسے فلم میں شامل نہیں کیا گیا تاکہ گرفتاری اور کیس کے آگے کی بات کی جاسکے۔ مصنف کتاب میں اس مقدمے کی تفصیلات سامنے لاتا ہے جو عام لوگوں کو معلوم نہیں تھیں اور اپنے قارئین کو یہ سمجھاتے ہیں کہ جب مقدمہ امریکی عدالت میں زیر سماعت تھا تو اس میں کیا پیش رفت ہوئی۔

مصنف کے مطابق امریکا یا سوویت یونین میں جاسوس بننے کے لیے یہ وقت موزوں نہیں تھا۔ سرد جنگ کے دوران دونوں آپس میں لڑ رہے تھے۔ چونکہ یہ جنگ دونوں ممالک کی زمین پر نہیں لڑی جا رہی تھی، اس لیے دونوں سپر پاورز نے ایک دوسرے کی تکنیکی ترقی کو سمجھنے کے لیے ایک دوسرے کی سرزمین پر جاسوس بھیجے تھے۔ ایسے میں جاسوسوں کا پکڑا جانا اتنا ہی برا تھا جتنی کہ پھانسی لیکن اگر آپ کے پاس جیمز بی ڈونووین جیسا وکیل موجود ہو تو یہ اتنا آسان نہیں۔

یہ کتاب امریکا میں سوویت یونین کے جاسوس کی گرفتاری اور 1957ء میں مقدمے کی سماعت اور 1961ء میں اس کی رہائی کے منفرد کیس کے پردے کے پیچھے کی کہانی بیان کرتی ہے۔مصنف انتہائی حقیقت پسندانہ انداز میں قارئین کو ان دنوں میں واپس لے گئے ہیں جب امریکا اور سوویت یونین دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد اس کے اثرات سے نبرد آزما تھے، ایک ایسی جنگ جس میں انہوں نے مل کر اپنے دشمن ہٹلر کے نازیوں کو شکست دی تھی۔

وقت تیزی سے آگے بڑھتا ہے اور 1948ء میں آئیں تو آپ روڈولف ایبل سے ملیں گے جو غیرقانونی طریقے سے امریکا آیا تھا۔ اس نے ایک متوفی امریکی کی شناخت لی اور اپنی جاسوسی سرگرمیوں کا آغاز کیا جو 1957ء میں اس کی گرفتاری تک جاری رہیں۔14 ابواب پر مشتمل اس کتاب میں مصنف دیگر کردار بھی متعارف کرواتے ہیں۔ وکیل جیمز ڈونووین جو ایبل کو سزائے موت سے بچاتا ہے، ہیہنن جس نے امریکا میں سوویت انٹیلی جنس کارندوں کی مخبری کی اور امریکی آرمی کا مکینک جو پہلے ماسکو میں سفارت خانے سے منسلک تھا، اس نے بھی جاسوسی نیٹ ورک میں اہم کردار ادا کیا۔

ان ابواب میں ملزم، الزام عائد کرنے والے اور مقدمے میں دونوں کی مدد کرنے والوں کی حکمت عملی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یہاں اصل جنگ ہیہنن اور ایبل کے وکلا کے درمیان لڑی گئی ہے۔ پراسیکیوٹر جیوری کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ایبل کو جاسوس ہونے کی وجہ سے سزا دی جانی چاہیے اور مدعا علیہ کے وکیل نے دلیل دی کہ مبینہ جاسوس کی گرفتاری قانون کے مطابق عمل میں نہیں لائی گئی۔

کوڈ میں پیغام رسانی، تصاویر اور مائیکرو ڈاٹس، مذکورہ کتاب میں وہ سب کچھ ہے جس کی 1960ء اور 1970 کی دہائی کے جاسوس تھرلر میں تلاش ہوتی ہے۔ تاہم کے جی بی مین کے مقدمے کی تفصیلات کو پرنٹ شکل دینے کی عجلت میں مصنف سیسل کوہنے راستے سے بھٹک گئے۔ مقدمے کو بیانیے کے طور پر شائع کرنے کے بجائے انہوں نے پوری کارروائی کو کاپی پیسٹ کیا ہے یعنی عدالتی کارروائی کو جوں کا توں لکھ دیا جس کی وجہ سے قارئین کو سمجھنے میں غیر ضروری طور پر زیادہ وقت لگا۔

اگر آپ کو معلوم نہیں تو بتاتے چلیں کہ کے جی بی (سوویت یونین کی مرکزی جاسوسی ایجنسی) کا سابق آپریٹو Reino Häyhänen (ہیہنن) اپنے ہم وطن کو دھوکہ دینے کا ذمہ دار تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ایبل متعدد القابات استعمال کرتا تھا اور اس کی لاپروائی کی وجہ سے وہ گرفتار ہوا۔ یہ سب جاننے کے لیے آپ کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ مصنف 1950ء کی دہائی کے آخر میں امریکی منظر نامہ پیش کرنے کے لیے تحقیق اور سفر کے شوقین کے طور پر تجربہ کرتے ہیں جہاں زندگی اتنی سادہ نہیں تھی جتنی کہ اسے اکثر بنایا جاتا ہے۔

جب میں نے یہ کتاب پڑھنے کا ارادہ کیا تو میں فلم بریجز آف اسپائیز جیسی تھرلر مواد کی تلاش میں تھا۔ میں امید کررہا تھا کہ اس کتاب میں ایبل کی جاسوسی کی مکمل تفصیلات موجود ہوں گی (جوکہ اس کتاب میں تھیں بھی)، وہ واقعات جن کی وجہ سے اس کی گرفتاری ہوئی (وہ بھی تھے) اور آخر کار اس کی سزا اور حیران کن طور پر اس کی روس واپسی، سب اس کتاب میں شامل ہے۔ میں ان تفصیلات کو تلاش کرنے کی بھی امید کر رہا تھا جو فلم میں شامل نہیں کی گئیں لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ مصنف نے کتاب قارئین کے بجائے اپنے لیے زیادہ لکھی ہے جس سے مجھے پریشانی ہوئی اور میرے وہ ساتھی بھی پریشان ہوسکتے ہیں جنہیں جاسوسی مواد پڑھنے کا شوق ہے۔

سوویت جاسوس ریڈولف ایبل

’کہانی میں شکن‘ کی اصطلاح جس کی تفصیل کتاب کے اندرونی سرورق میں دی گئی ہے، کو ایک ایپیلوگ (اختتامیہ) میں تبدیل کردیا گیا تھا جسے ایبل کے ٹرائل کی تفصیلات مکمل ہونے کے بعد شامل کیا گیا۔ میں یہاں فرانسس گیری پاورز کے بارے میں بات کررہا ہوں جو ایبل کی ملک واپسی کی وجہ بنے، وہی شخص جس سے بدنام زمانہ ’برج آف اسپائیز‘ (گلینیک برج جو پوٹسڈیم کو برلن سے ملاتا تھا) پر ایبل کا تبادلہ کیا گیا تھا۔ مکینک ماسٹر سارجنٹ رائے روڈز عرف ’کیوبیک‘ کے پاس اس کتاب میں یو 2 پائلٹ سے زیادہ کام تھا جسے سوویت میں سی آئی اے کے خفیہ مشن کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔

کچھ عجیب و غریب وجوہات کی بنا پر اس کتاب میں فریڈرک پرائر کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ وہ امریکی طالب علم جو بریجز آف اسپائیز میں کیے جانے والے تبادلے کا حصہ تھا۔ شاید یہ مصنف کی جانب سے تین کے بجائے دو افراد پر توجہ مرکوز کرنے کی دانستہ کوشش تھی۔ اچھی بات ہے کہ ہدایت کار اسٹیون اسپیل برگ نے پلاٹ کے لیے پرائر کی اہمیت کو سمجھا اور اسے فلم میں شامل کیا جس پر اس کتاب کے مصنف کو بھی غور کرنا چاہیے تھا۔

کچھ تبدیلیاں کرکے اس کتاب کو مصنف مزید دلچسپ بنا سکتے تھے۔ ٹرائل کی مکمل کارروائی یا ٹرانسکرپٹس پرنٹ کرنے کے بجائے، مصنف قارئین کے فائدے کے لیے اس کارروائی کا ایک مختصر ورژن بھی فراہم کرسکتا تھا۔ جی ہاں، جاسوسی میں دلچسپی رکھنے والے شخص کو کارروائیوں کے ٹرانسکرپٹس کے محض ایک یا دو پیراگرافس سے ہی فائدہ ہوا ہوگا لیکن قانونی اصطلاحات سے بھرے صفحات ہر کسی کے لیے دلچسپی کا باعث نہیں ہوسکتے۔اسی طرح ایف بی آئی کی رپورٹس کا لفظی حوالہ دینا بھی برا خیال تھا جسے شاید مصنف نے اس لیے نظرانداز کیا کیونکہ وہ بہ حیثیت مصنف اور وکیل کیس کے بہت قریب تھا۔

ایف بی آئی کے ذریعے ضبط کیے گئے جاسوسی سامان کی چند تصاویر جیسے خفیہ معلومات لکھنے کے لیے سائفر پیڈ، کھوکھلے بولٹ، اور سکوں نے بھی ان قارئین کو فائدہ دیا ہوگا جو فلم کے بجائے کتابی کہانی کو ترجیح دیتے ہیں۔ جن لوگوں نے بریجز آف اسپائیز دیکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ مائکرو ڈاٹ سے مصنف کا مطلب کیا ہے یا کھوکھلی دھات نیکل کے ذریعے پیغام رسانی کیسے کی جاسکتی ہے لیکن جنہوں نے فلم نہیں دیکھی انہیں مصنف کی بات سمجھ نہیں آئے گی۔ اگر مصنف سیسل کوہنے نے عام قاری کو مدِنظر رکھ کر اس کی سوچ کے مطابق واقعات قلمبند کیے ہوتے تو یہ مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔

اچھی بات یہ ہے کہ وہ کچھ اہم تفصیلات کو کتاب میں شامل کرنا نہیں بھولے جو قارئین کی دلچسپی کا باعث بنیں گی جیسے کہ ایک ڈرائی کلینر اور ایک پیپر بوائے کو کریڈٹ دینا جس کی صاف گوئی کی وجہ سے حکام نے درست سمت میں کام کیا۔ ان کے تعاون کے بغیر، جاسوسی نیٹ ورک کو اتنی جلدی دریافت نہیں کیا جا سکتا تھا۔سیسل کوہنے نے ان وجوہات کی کھوج میں ایک قابل ستائش کام کیا ہے کہ ہیہنن نے ایبل کو کیوں دھوکہ دیا، یہ دونوں ایک ایسے دور میں کیسے پیغام رسانی میں کامیاب ہوئے کہ جب انٹرنیٹ، ای میلز اور فیکس نہیں ہوتا تھا اور کیوں حساس معلومات ظاہر نہ کرنے پر مصر ایبل کو فائدہ ہوا۔

اگرچہ یہ کتاب اس نرمی اور لچک کا ذکر نہیں کرتی جو عدالتی نظام نے ایف بی آئی کے ایجنٹس کو غیر قانونی سرچ آپریشنز کے معاملے میں دکھائی تھی لیکن اس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ایبل کے کیے گئے جرائم کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا تھا اور یہ کہ ایبل غیرقانونی کام کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں نہیں پکڑا گیا تھا۔اس سے استغاثہ اور دفاع دونوں کو کافی وقت ملا جس کے بارے میں ہمیں اس کتاب کے صفحات سے پتا چلا۔ اس کتاب کے ذریعے اس کیس کی بہت سی وہ تفصیلات سامنے آئیں جو اب تک منظر عام پر نہیں آئی تھیں، تو یہ کتاب پڑھنا ایک بری ڈیل نہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے