امریکہ، طلبہ تحریک نے بائیڈن کو بند گلی میں پہنچا دیا/ "جنریشن زیڈ” نے میڈیا کی اجارہ داری توڑ ڈالی

1bd2bfd67c4c897791cf051b4a0858aa_L.jpg

40 سے زائد امریکی یونیورسٹیوں کے طلباء نے احتجاج کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس سے مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اٹھانے میں مدد ملی ہے اور عالمی رائے عامہ کے موقف میں موئثر تبدیلی آئی ہے۔

محمد رضا مرادی:

صیہونی حکومت نے گزشتہ 7 مہینوں میں فلسطینی عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے ایک ہمہ گیر نسل کشی کی ہے۔ عالمی طاقتوں نے اس نسل کشی کی مخالفت کرنے کے بجائے شرمناک موقف اپناتے ہوئے صیہونی رجیم کی حمایت کی، امریکہ نے اسرائیل کے اہم اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر اس نسل کشی کو مزید وحشیانہ انداز میں جاری رکھنے کی ٹھانی ہے، جیسا کہ اسرائیل کے لیے 26 بلین ڈالر کا بجٹ منظور کرنا اسی ہدف کے تحت ہے۔

لیکن جنگ کے حالات نے وقت کے دھارے کو یکسر مختلف انداز میں بدل ڈالا ہے۔ 40 سے زائد امریکی یونیورسٹیوں کے طلباء نے احتجاج کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس سے مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر موئثر انداز میں اٹھانے میں مدد ملی ہے۔

ان مظاہروں پر امریکی حکومت کا ردعمل جبر و تشدد اور یونیورسٹیوں پر پولیس گردی کے سوا کچھ نہیں رہا۔ لیکن اس کے باوجود طلبہ کی یہ تحریک کئی پہلوؤں سے بہت اہم ہے:

1۔ طلبہ تحریک، تبدیلی کا ایک موئثر عنصر

پچھلی چند دہائیوں میں، امریکی طلبہ تحریک نے ہمیشہ اس ملک کی پالیسیوں میں ایک موثر کردار ادا کیا ہے۔

امریکہ میں تقریباً 20 ملین طلباء ہیں۔ یہ آبادی مختلف سمتوں میں کردار ادا کرنے کی بہت اہم صلاحیت رکھتی ہے۔

1960 کی دہائی میں جب امریکہ ویتنام کی جنگ میں گھرا ہوا تھا تو اس جنگ کے خلاف احتجاج میں طلبہ تحریکوں نے منفرد کردار ادا کیا۔ 1970 میں 880 امریکی یونیورسٹیوں کے تقریباً 10 لاکھ طلباء نے مسلسل احتجاج شروع کیا جو بالآخر 1975 میں ویتنام کی جنگ کے خاتمے پر منتج ہوا۔

1980 کی دہائی میں، جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت کے خلاف طلباء کے احتجاج نے جنوبی افریقہ کے بارے میں امریکی حکام کو پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ اس کے علاوہ عراق، افغانستان اور لیبیا کے مسئلے پر جنگ مخالف طلبہ کے مظاہرے بہت اہم رہے ہیں۔ اس لیے امریکہ میں طلبہ تحریک صرف ایک علامتی احتجاجی تحریک نہیں ہے۔

موجودہ صورتحال میں طلبہ کے احتجاج کے باعث 1500 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس معاملے کی وجہ سے امریکی پولیس پر کافی تنقید ہوئی ہے۔

درحقیقت اس تحریک کے جذبے اور امریکی پولیس کے ردعمل نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ امریکہ میں کسی بھی قسم کا احتجاج تب تک برداشت کیا جا سکتا ہے جب تک کہ وہ ملکی مقاصد کے مطابق ہو۔ یقیناً، اب تک طالب علموں نے یہ مہم جیت لی ہے۔ اگر جو بائیڈن طلباء کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں تو صیہونی لابی کے ان کے لئے ووٹ بہت متاثر ہوں گے اس کے علاوہ غزہ جنگ کے لیے بائیڈن کی مسلسل حمایت اور امریکی طلباء کو دبانے سے بائیڈن کی "جنریشن زیڈ” میں مقبولیت بہت کم ہو جائے گی۔

در حقیقت بائیڈن اس وقت بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔ پچھلے 7 مہینوں میں بائیڈن کی اسرائیل کے لیے مسلسل حمایت نے یہ تعطل پیدا کر دیا ہے۔ چنانچہ پہلی نظر میں یہ طلبہ تحریک اس حد تک زبردست کامیاب رہی ہے۔

2: امریکہ کی "جنریشن Z” کا مین اسٹریم میڈیا پر عدم اعتماد

1996 کے بعد پیدا ہونے والے امریکی نوجوانوں کو "جنریشن Z” کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ نوجوان نسل فرار اور بغاوت کا مرکز ہے اور اس کا روایتی فریم ورک میں تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس نسل کی سب سے اہم خصوصیت مین اسٹریم میڈیا سورسز کی اجارہ داری کو توڑنا ہے۔ امریکہ میں 40 سال اور اس سے اوپر کی عمر کی حد میں، مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ جیسے "SNN” اور "Fox News” کو عام طور پر خبروں کے مرکزی ذریعہ کے طور پر فالو کیا جاتا ہے۔ یہ ذرائع ابلاغ بھی خبروں کو انتہائی سنسر اور مخصوص سمت میں سامعین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ امریکی عوام کی عالمی ترقی کے بارے میں درست معلومات کے فقدان کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ مثال کے طور پر یمن کی جنگ میں اہم امریکی میڈیا نے یمن میں ہونے والے جرائم اور یمنی عورتوں اور بچوں کی شہادت کو شاذ و نادر ہی شائع کیا یا اگر کیا تو اسے یمن کی اندرونی جماعتوں کی پالیسیوں کا نتیجہ سمجھا۔

اگرچہ ان حملوں کا مرتکب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی مدد سے تھا۔ اس جھوٹ یا سینسرشپ کا نتیجہ یمن کی جنگ کے بارے میں امریکیوں کی بے حسی کی صورت میں نکلا۔

لیکن امریکہ میں "جنریشن زیڈ” نے روایتی امریکی میڈیا کی اجارہ داری کو نظرانداز کر دیا ہے اور براہ راست متعدد ذرائع سے خبریں وصول کرتی ہے۔ یہ مسئلہ دنیا کی حقیقی پالیسیوں اور رجحانات کے بارے میں حقیقی آگاہی کا باعث بنا ہے۔ اس وجہ سے، اس نسل نے اب غزہ کی نسل کشی کے خلاف رد عمل کا اظہار کیا ہے، اور امریکی یونیورسٹیوں میں ایک بے مثال تحریک چل پڑی ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے ایک نئے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ کے خلاف موجودہ جارحیت کے دوران فلسطین کے بارے میں مثبت سوچ رکھنے والے نوجوان امریکیوں کی تعداد اسرائیل کے حامیوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔

سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 18-29 سال کی عمر کے 60% نوجوان امریکی فلسطینی عوام کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں جب کہ 46% اسرائیل کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں۔

3۔ فلسطین کو عالمی مسئلے میں تبدیل کرنا

1948ء اور صیہونی حکومت کے قیام کے بعد سے مسئلہ فلسطین ہمیشہ عالم اسلام کے مرکزی مسائل میں سے ایک رہا ہے۔ بلاشبہ حالیہ برسوں میں بعض عرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل نے اسلامی دنیا میں اس مسئلے کو نظر انداص کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ لیکن طوفان الاقصیٰ آپریشن اور غزہ میں اسرائیل کے جرائم نے واقعات کا رخ بدل دیا ہے۔

اسرائیل سے وابستہ میڈیا سورسز کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں صہیونی لابی نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو بہت کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن امریکی طلباء کی تحریک نے یہ مسئلہ عالم اسلام سے آگے بڑھا کر اب دنیا کا پہلا مسئلہ بنا دیا ہے۔ یہ فلسطینی عوام کے مستقبل میں سب سے زیادہ موثر تغیرات میں سے ایک ہوگا۔

شاید امریکی طلبہ تحریک غزہ میں اسرائیلی جرائم کے تسلسل کو روک نہیں سکتی اور نہ ہی رفح میں اسرائیلی کارروائیوں کے آغاز کو روک سکتی ہے، لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ فلسطین ہمیشہ کے لیے ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے اور فلسطین اب فلسطین تک محدود نہیں رہ سکتا۔ یہ مسئلہ فلسطین کے مستقبل کے لیے تل ابیب کے فیصلوں کو یقینی طور پر متاثر کرے گا اور یہ رجیم اب مزید کسی نئی جارحیت کے ارتکاب سے پہلے سوبا بار اس کے عالمی نتائج کا جائزہ لے گی۔ بصورت دیگر اسے عالمی نفرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے