عالمی آزادی صحافت کے انڈیکس میں پاکستان کی مزید دو درجہ تنزلی
عالمی آزادی صحافت کے انڈیکس میں پاکستان کی دو درجہ تنزلی ہوئی ہے جس کے بعد پاکستان 180 ممالک کی فہرست میں 152ویں نمبر پر آ گیا ہے۔عالمی آزادی صحافت کے دن کے موقع پر رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ میں پاکستان دو درجہ تنزلی کے بعد 150 سے 152ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 1947 میں آزادی کے بعد سے پاکستان زیادہ سے زیادہ صحافتی آزادی کے حصول کے لیے سول سوسائٹی کی جدوجہد اور ایک سیاسی حقیقت کے درمیان توازن کے قیام کی کوشش کررہا ہے جہاں ملک میں سیاسی اور فوجی اشرافیہ نے ملک کے زیادہ تر میڈیا پر کنٹرول برقرار رکھا ہوا ہے۔اس حوالے سے کہا گیا کہ 2002 میں ریاستی نشریاتی ادارے کی اجارہ داری کے خاتمے کے بعد پاکستان کے میڈیا کا منظرنامہ کافی متنوع ہوا ہے جہاں انگریزی میڈیا میں آزادی اظہار کی روایات مضبوط نظر آتی ہیں اور آن لائن میڈیا تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک کے نجی میڈیا اداروں کا فنڈنگ کے لیے زیادہ تر انحصار قانونی نوٹسز اور سرکاری اداروں کے اشتہارات پر ہے اور اسی وجہ سے وزارت اطلاعات ادارتی پالیسی پر اثرورسوخ کے لیے اشتہارات بند کرنے کی دھمکیاں دیتی ہے جس کے نتیجے میں صحافت کے شعبے میں ایک خودساختہ سینسر شپ لاگو ہے اور پہلے سے معاشی مشکلات سے دوچار ملازمین کی تنخواہیں اکثر کاٹ لی جاتی ہیں۔ملک میں آزادی صحافت کی دگرگوں حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ اپنی سوچ اور نظریے سے قطع نظر آزادی صحافت کی حمایت کرتی ہیں لیکن ملک کے امور پر عسکری اداروں کے کنٹرول کے سبب یہی جماعتیں جب اقتدار میں آتی ہیں تو آزادی صحافت کے دفاع میں ناکام نظر آتی ہیں۔
میڈیا واچ ڈاگ نے کہا کہ حکومت کا میڈیا کے انضباطی اداروں پر براہ راست کنٹرول ہے جو انتہائی منظم طریقے سے عوام کے معلومات کے حق پر حکومت کے دفاع کو ترجیح دیتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ جیسے جیسے فوج کی سویلین اداروں پر گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے، سیاست میں فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی کی مداخلت کے حوالے سے رپورٹنگ اور کوریج صحافیوں کے لیے ناممکن ہو گئی ہے اور یہ نوگو ایریا بن گیا ہے۔انڈیکس میں پاکستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک قرار دیا گیا جہاں کرپشن، غیرقانونی اسمگلنگ وغیرہ کے حوالے سے رپورٹنگ پر ہر سال تین سے چار صحافی قتل کر دیے جاتے ہیں اور ملزمان کو سزا تک نہیں ہوتی۔
دوسری جانب اس فہرست میں پڑوسی ملک بھارت پاکستان سے 7 درجے نیچے 159 نیچے ہے البتہ گزشتہ سال 161ویں درجے کے مقابلے میں اس کی رینکنگ میں دو درجے بہتری آئی ہے اور وہ 159ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت میں 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے میڈیا پر غیراعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے اور بھارتی وزیراعظم نے اپنی جماعت بھارتیا جنتا پارٹی اور میڈیا پر حاوی ملک کے بڑے خاندانوں کے درمیان شاندار روابط قائم کیے ہیں۔
اس فہرست میں ناروے بدستور پہلے نمبر پر براجمان ہے جبکہ بدترین صحافی صورتحال پر ایریٹیریا فہرست میں آخری نمبر پر موجود ہے اور اس نے گزشتہ سال آخری نمبر پر آنے والے شمالی کوریا کی جگہ یہ منصب حاصل کیا ہے۔افغانستان 26 درجے تنزلی کے بعد 178ویں، ٹوگو 43 درجے تنزلی کے بعد 113، ایکواڈور 30 درجے گراوٹ کے بعد 110ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔
اس فہرست میں صحافت کے حوالے سے سب سے بدترین صورتحال کے حامل آخری 10 ممالک کی فہرست میں چین، ایران، شمالی کوریا اور شام بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے کو صحافت کے اعتبار سے سب سے خطرناک جبکہ یورپ میں صورتحال کو اچھا اور تسلی بخش قرار دیا گیا۔
یورپ میں سب سے ابتر صورتحال یونان کی قرار دی گئی جس کا فہرست میں 88واں ممبر ہے جس کے بعد اس فہرست میں ہنگری اور پولینڈ کا نمبر آتا ہے۔فہرست میں دیگر ممالک کی بات کی جائے تو کینیڈا 14، فرانس21، برطانیہ 23، آسٹریلیا 39، اٹلی 46، امریکا 55، یوکرین 61، ارجنٹائن 66 اور اسرائیل 101 نمبر پر موجود ہے۔فہرست میں صحافت کے حوالے سے ابتر صورتحال سے دوچار ممالک کی بات کی جائے تو سری لنکا 150، یمن 154، فلسطین 157، ترکیہ 158، روس 162، بنگلہ دیش 165، سعودی عرب 166، مصر 170 اور چین 172ویں نمبر پر موجود ہے۔