گوہر اعجاز سے سیکھیں

2635150-JavedChaudhryNew-1714416352-647-640x480.jpg

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم میں عوام پر ’’وار ٹیکس‘‘ لگایا تھا‘ اس زمانے میں خضر حیات ٹوانہ پنجاب کے وزیراعظم تھے(تقسیم ہند سے پہلے پنجاب میں وزیراعلیٰ کے بجائے وزیراعظم کاعہدہ ہوتا تھا) ‘وہ 1800 مربع زمین کے مالک تھے اور پنجاب کے سب سے بڑے جاگیر دار تھے‘ حکومت فنڈ جمع کر کے رقم وائسرائے کو بھجوا دیتی تھی‘ 1945میں اچانک جنگ ختم ہوگئی اور اس کے ساتھ ’’وار فنڈ‘‘ بھی بند ہو گیا لیکن اس وقت تک خزانے میں اس مد میں 7 لاکھ روپے جمع ہو چکے تھے۔

یہ رقم بجٹ سے اضافی تھی لہٰذا حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی تھی یہ اس رقم کو کہاں خرچ کرے؟ وزیراعظم اور ان کے والد سر سکندر حیات ٹوانہ دونوں نے برطانیہ کے اعلیٰ اداروں سے تعلیم حاصل کی تھی‘ٹوانے ’’فارن ایجوکیشن‘‘ کے ثمرات سے واقف تھے لہٰذا خضر حیات ٹوانہ نے اس وار فنڈ سے پنجاب کے باصلاحیت نوجوانوں کو برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹی سے تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا‘ حکومت نے فوری طور پر پنجاب یونیورسٹی سے ٹاپ کرنے والے تمام طالب علموں کو فل اسکالرشپ د ے کر برطانیہ بھجوا دیا‘ اسکالر شپ حاصل کرنے والے نوجوانوں میں جھنگ کا ایک لڑکا بھی شامل تھا‘ وہ اسکول ٹیچر کا بیٹا تھا۔

اس نے میٹرک میں پورے پنجاب میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی اور اس کے بعد اس نے اسکالر شپ پر گورنمنٹ کالج سے ایم ایس سی تک تعلیم حاصل کی‘ اس نے 1945میں ریاضی میں ایم ایس سی کی اور وہ اس کلاس میں بھی اول آیا تھا لہٰذا وہ فارن اسکالرشپ کے لیے سلیکٹ ہو کر 1946 میں سینٹ جان کالج کیمبرج چلا گیا اور اس نے کیمبرج سے ریاضی اور فزکس دونوں مضامین میں آنر کے ساتھ ایم ایس سی کر لی‘ وہ 1949 میں جھنگ واپس آ گیا‘ پاکستان بن چکا تھا مگر ’’وار فنڈ‘‘ میں ابھی تک کچھ رقم موجود تھی‘ حکومت نے اس کی کارکردگی دیکھ کر اس کا اسکالر شپ ’’ری نیو‘‘ کر دیا اور یوں وہ پی ایچ ڈی کے لیے دوبارہ کیمبرج چلا گیا۔

اس نے اس اسکالر شپ سے نہ صرف فزکس میں پی ایچ ڈی کی بلکہ فزکس میں ایک نئی برانچ کی بنیاد بھی رکھی اور اس کے اعتراف میں اسے1979 میں نوبل انعام سے نوازا گیا‘ یہ پوری اسلامی دنیاکے کسی شہری کا دوسرا جب کہ پاکستان کا پہلا نوبل انعام تھا (اسلامی دنیا میں پہلا نوبل انعام مصر کے صدر انور سادات کو ملا تھا) یہ اب تک سائنس میں اسلامی دنیا کا واحد نوبل انعام بھی ہے جی ہاں اس نوجوان کا نام ڈاکٹر عبدالسلام تھا۔

ڈاکٹر عبدالسلام کو فزکس کا دوسرا آئن اسٹائن کہا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے دوسرا آئن اسٹائن مذہب کی ٹکٹکی پر چڑھ گیا اور ہم نے احمدی ہونے کی وجہ سے انھیں آج تک پاکستانی تسلیم نہیں کیا جب کہ اٹلی نے ان کے نام سے ٹرائیسٹ شہر میں پوری لیبارٹری بنا دی اوروہ اب تک ہزاروں نئے سائنس دان پیدا کر چکی ہے‘ڈاکٹر عبدالسلام کا انتقال آکسفورڈ میں ہوا‘ یونیورسٹی نے ان کے اعزاز میں شان دار تقریبات منعقد کیں مگر ہم نے آج تک ان کی قبر پر تختی نہیں لگنے دی‘ بہرحال ہم اس ایشو کو سائیڈ پر رکھتے ہیں اور وارفنڈ اور خضر حیات ٹوانہ کے چھوٹے سے فیصلے کی طرف آتے ہیں۔

آپ فرض کریں اگر اس زمانے میں وار فنڈ میں رقم نہ بچتی یا وزیراعظم وہ رقم نالیاں‘ گلیاں اور کھالے پکے کرنے پر خرچ کر دیتے تو کیا ہوتا؟ یقینا ڈاکٹر عبدالسلام جیسا نابغہ پیدا ہوتا اور نہ فزکس میں ’’الیکٹرو ویک یونی فکیشن‘‘ کی تھیوری آتی اور نہ دنیا 2200 نئی ایجادات دیکھ پاتی‘ یہ وزیراعظم کے ایک چھوٹے سے فیصلے کا نتیجہ تھا جس سے ڈاکٹر عبدالسلام جیسے بڑے دماغ نے جنم لیا اور پھر پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن ہو گیا‘ خضر حیات ٹوانہ کتنا بڑا جاگیر دار اور سیاست دان تھا ‘ وہ کس پارٹی سے تعلق رکھتا تھا‘ اس نے اپنے دور میں کتنی سڑکیں‘ بازار‘ گلیاں اور ایئرپورٹس بنائے اور وہ کہاں فوت ہوا؟

پاکستان میں آج کوئی نہیں جانتا لیکن اس کے ایک معمولی سے فیصلے کی پیداوار ڈاکٹر عبدالسلام کو پوری دنیا جانتی ہے لہٰذا گلیاں بنانا‘ تنوروں پر روٹی سستی کرنا اور کسانوں کی ساری گندم خرید لینا واقعی کمال ہو گا لیکن ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگ پیدا کرنا اس سے لاکھ گنا بڑا کام ہے مگر بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کو اس کا ادراک ہے اور نہ ہی وژن مثلاً آپ لمز (LUMS) کی مثال لے لیں‘یہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی واحد یونیورسٹی ہے۔

اس کے اسٹوڈنٹس پوری دنیا میں جاتے ہیں اور وہاں جھنڈے بھی گاڑھتے ہیں‘ اس یونیورسٹی کے انڈر گریجویٹ اسٹوڈنٹس کی سالانہ فیس 16 لاکھ روپے ہے اور اتنی رقم ملک میں کتنے والدین افورڈ کر سکتے ہیں؟ اگر یہ بے چارے افورڈ کر بھی لیں تو بھی کپڑوں‘ کتابوں‘ کھانے اور ہاسٹل کی فیس اس کے علاوہ ہے چناں چہ ایک انڈر گریجویٹ اسٹوڈنٹ پر سالانہ 25لاکھ روپے خرچ آتا ہے اور اسٹوڈنٹ چار سال میں گریجویٹ ہوتا ہے گویا اسے ایک کروڑ روپے چاہئیں اور ملک میں کتنے لوگ یہ رقم افورڈ کر سکتے ہیں لہٰذا ہر سال ڈاکٹر عبدالسلام جیسے سیکڑوں ٹیلنٹڈ اسٹوڈنٹس میرٹ پر آنے کے باوجود لمز میں داخلہ نہیں لے پاتے‘ آغا خان میڈیکل کالج اور شفاء میڈیکل یونیورسٹی کی صورت حال بھی یہی ہے۔

یہ دونوں عالمی سطح پر تسلیم شدہ میڈیکل کالج ہیں‘ ان کی فیسیں بھی سالانہ 15 سے 20 لاکھ ہیں‘طالب علموں کو ان اداروں سے ڈاکٹر بننے کے لیے دو کروڑ روپے چاہئیں (فیس اور باقی اخراجات)‘ فیس کی وجہ سے ان اداروں سے بھی سیکڑوں طالب علم محروم ہو جاتے ہیں‘ ملک کے باقی تعلیمی اداروں میں بھی یہی صورت حال ہے‘ ہر سال سیکڑوں طالب علم اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔

میرے دوست گوہر اعجازنے اس صورت حال کا ادراک کیا اور انھوں نے اپنے حصے کی شمع جلا دی‘ گوہر اعجاز حقیقتاً شان دار بلکہ حیران کن شخص ہیں‘ یہ ہر سال لمز کے 20 طالب علموں کو فل اسکالر شپ دیتے تھے لیکن اس سال انھوں نے یہ اسکالر شپ 20 سے 100 کر دیے ہیں یعنی آپ کا نام اگر لمز کی میرٹ لسٹ میں آ گیا اور آپ فیس ادا نہیں کر سکتے تو یونیورسٹی گوہر اعجاز کے اکاؤنٹ سے آپ کی فیس بھی ادا کرے گی اور باقی اخراجات بھی ‘ اس پروجیکٹ پر گوہر صاحب کے سالانہ 16 کروڑ روپے خرچ ہوں گے جب کہ یہ اس کے علاوہ لاہور میں سالانہ ہزاروںفری ڈائلیسز بھی کراتے ہیں اور لاہور کے مختلف اسپتالوں میں روزانہ کھانوں کے 33 ہزار پیکٹس بھی تقسیم کرتے ہیں۔

میں نے جب اسکالر شپس کی خبر پڑھی تو میں نے سوچا اگر گوہراعجاز کی طرح دس بڑے بزنس مین لمز کے لیے سو سو اسکالر شپس کا بندوبست کر دیں تو کتنا بڑا انقلاب آ سکتا ہے‘ میرا خیال ہے اگر حکومت تھوڑی سی مہربانی کرے‘ وزیر خزانہ اورنگ زیب خود بھی پڑھے لکھے اور فارن کوالی فائیڈ ہیںاگر یہ بھی خدا ترسی کریں اور یہ گوہر اعجاز جیسے بڑے بزنس مینوں اور کمپنیوں کو ٹیکس میں دس فیصد چھوٹ دے دیں اور انھیں یہ رقم پاکستان کے 20 بڑے تعلیمی اداروں‘ اسپتالوں اور این جی اوز میں جمع کرانے یا ان لوگوں کو ان داروں کو ’’اون‘‘ کرنے کی ذمے داری دے دیں یا انھیں ’’لمز‘‘ جیسی نئی یونیورسٹیاں بنانے اور انڈس اسپتال جیسے نئے اسپتال تعمیر کرنے کی ذمے داری دے دیں یا انھیں پاکستان سے ہیپاٹائٹس سی اور پولیو جیسے امراض کے خاتمے کا کام سونپ دیں یا بچیوں کی تعلیم کا ٹاسک دے دیں تو یہ لوگ کمال کر دیں گے۔

آپ خود سوچیے اگر گوہر اعجاز جیسے پانچ بزنس مین’’ لمز‘‘ کے 500 طالب علموں کو فنانس کر دیتے ہیں اور اس فنڈنگ سے چھوٹے شہروں کے غریب بچے لمز پہنچ جاتے ہیں اور یونیورسٹی شام کے وقت ان کے لیے نئی کلاسز شروع کر دیتی ہے یا نیا کیمپس بنا دیتی ہے تو ملک میں کتنا بڑا انقلاب آ جائے گا؟ حکومت ہر سال پاکستان کے امراء اور بزنس مینوں سے کھربوں روپے ٹیکس جمع کرتی ہے لیکن یہ رقم کہاں جاتی ہے؟

یہ قرض کی قسطوں اور سود کی ادائیگی میں ضایع ہو جاتی ہے یا پھر اسے پی آئی اے اور اسٹیل مل جیسے نالائق ادارے چوس جاتے ہیں اور اگر اس کے بعد بھی چند ٹکڑے بچ جائیں تو یہ وزیروں اور بیوروکریٹس کی انا کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں جب کہ عبدالسلام جیسے ٹیلنٹڈ بچے اپنے سرٹیفکیٹ اور سندیں بغلوں میں داب کر گلی گلی دھکے کھاتے رہتے ہیں اگر حکومت مہربانی کرے اور یہ بزنس ایمپائرز‘ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بزنس مینوں کو ذمے داری دے دے اور اس کے عوض انھیں ٹیکس میں دس فیصد چھوٹ دے دے تو ملک کا مقدر بدل جائے گا‘ یہ لوگ کیوں کہ ادارے بنانے اور چلانے کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔

لہٰذا یہ کام اور رزلٹ دونوں لے لیں گے‘ ہو سکتا ہے اس ’’اینی شیٹو‘‘ کے نتیجے میں کوئی ایک ایسا بچہ سامنے آ جائے جو کل کو ملک کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکال لے‘ جو پاکستان کی 60فیصد آبادی کو خط غربت سے اوپر لے آئے یا پھر وہ دنیا کو کوئی ایسا نیا اقتصادی نظام دے دے جس سے دنیا سے غربت ختم ہو جائے‘ یہ حقیقت بہرحال حقیقت ہے قوموں کو قوم سڑکیں اور نالیاں نہیں بناتیں لوگ بناتے ہیں اور لوگ بہرحال اچھی یونیورسٹیوں سے جنم لیتے ہیں چناں چہ میری حکومت سے درخواست ہے یہ گوہر اعجاز سے سیکھے‘ یہ بزنس مینوں سے کام لے‘ انھیں ساتھ شامل کرے‘ ان کے پاس سرمایہ بھی ہے اور تکنیک بھی‘ یہ ملک میں درجنوں نئے ڈاکٹرعبدالسلام پیدا کر دیں گے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے