اوپرا سینما ” مقابلہ حسن میں شرکت ” شراب خانے اور بدلتا سعودیہ

XiwZeVZs-photo1705565382-1200x675.jpeg

سعودی عرب کے کراون پرنس محمدبن سلمان کے ویژن 2030 کے تحت سعودی عرب میں بڑی تیزی سے تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہےـ ایک طرف جہاں نیوم سٹی اپنے تکمیلی مراحل کے قریب ہے وہیں دوسری طرف سعودی دوشیزہ رومی القحطانی کی مقابلہ حسن میں شرکت ” دارالحکومت ریاض میں بنائے جانے والے شراب خانے کے بعد اوپرا سینما کے افتتاح نے سب کو حیران کر دیا ہے ـ

محمد بن سلمان ویژن

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اصلاحات کے ساتھ برسوں کی سخت سماجی پابندیوں کے بعد سعودی عرب میں فیشن شوز اور تفریح ​​کی دیگر اقسام دیکھی جا رہی ہیں۔ سعودی عرب فیشن اور ماڈلنگ کی دنیا کے لیے بالکل نیا ہے.شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کی تقدیر بدلنے والے ویژن 2030 کے روح رواں ہیں. اس مطلب تیل پر سے معیشت کا انحصار ختم کرنا ہے. اسی کے تحت سیاحت اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جارہا ہے. ویژن 2030 نے تسلیم کیا ہے کہ تہذیبی سرگرمیاں اور تفریح و تماشے کے مواقع سعودی عرب میں اتنے نہیں جو لوگوں کی خواہشات کو پورا کرسکیں. ویژن 2030 سعودی عرب کے لبرل ہونے کا عزم ظاہر کرتا ہے۔

رومی قحطانی کون ہیں

معروف ماڈل رومی القحطانی نے ستمبر 2024 کے میکسیکو میں‌ہونے والے مقابلوں‌ میں‌سعودی عرب کی ترجمانی کرنے کا اعلان کر رکھا ہے.انہوں‌نے اس کی نمائندگی حاصل کرنے کا دعوی بھی کردیا ہے. ریاض سے تعلق رکھنے والی ماڈل ملائیشیا کےمس اور مسز گلوبل ایشین سمیت دنیا بھر کے مقابلہ حسن میں حصہ لے چکی ہیں. انہوں‌نے نا صرف مقابلوں‌میں‌حصہ لیا بلکہ سعودی عرب اور اپنے لیے جیت بھی سمیٹی.27 سالہ ماڈل پہلے ہی مس سعودی عرب، مس مڈل ایسٹ، مس عرب ورلڈ پیس اور مس ویمن سعودی عرب کا تاج اپنے سرپہ سجا چکی ہیں. ماڈل اب مس یونیورس کے لیے مبینہ طورپر سعودی عوام کی پہلی نمائندہ بننے جارہی ہیں. مارچ کے آخر میں‌سیکوئن بال گاؤن میں ملبوس مس یونیورس سعودی عرب کا سیش پہن کر اور سعودی پرچم کے ساتھ ماڈل نے انسٹاگرام پر تصویر شیئر کی تھی. ماڈل انسٹا گرام پر نوجوانوں‌میں زیادہ مقبول ہیں. انہیں‌ 10 لاکھ افراد فالو کرتے ہیں. انہوں نے باقاعدہ طور پر مس یونیورس مقابلوں‌میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا. دوسری طرف کلمہ طیبہ سے مزین سعودی پرچم کو اپنے عریاں جسم پر لپیٹنے کی وجہ سے رومی القحطانی پر بہت زیادہ تنقید بھی کی گئی تھی

اوپرا سینما کا افتتاح

سعودی عرب میں بنایا گیا پہلا اوپرا ریاض میں شائقین کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔زرقا الیماما‘ کے عنوان سے بنایا گیا اوپرا ایک ایسی عربی خاتون رہنما کی کہانی ہے جنھیں قدرت نے مستقبل دیکھ لینے کی صلاحیت عطا کی تھی۔عربی اوپرا کے سربراہ ایون وکچیوک کے مطابق عرب قبائل زرقا کی پیشگوئی اور ممکنہ خطرات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ایون کا کہنا ہے کہ اوپرا کی کہانی ایسی ہے جسے پوری دُنیا کے سامنے بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ ایون کی کمپنی عربی اوپرا سوئٹزرلینڈ میں بنائی گئی تھی جس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں کلاسیکل موسیقی کی تعلیم دینا تھا۔

ایون اس اوپرا کی کہانی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کہانی کا مرکزی کردار ایک ایسی ہیروئن ہیں جن کے پاس مستقبل دیکھ لینے کی صلاحیت ہے، وہ دشمنی کے دور میں بھی محبت کا پرچار کرتی ہیں اور اس سلسلے میں اپنی جان خطرے میں ڈالنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی داستان ہے جس سے عرب دُنیا کی بڑی آبادی آشنا ہے۔اس اوپرا کے لیے عربی شاعری سعودی شاعر صالح زمانان نے لکھی ہے جبکہ اس میں موسیقی آسٹریلوی موسیقار لی بریڈشا نے دی ہے۔لی بریڈشا کہتے ہیں کہ ’شروع میں جو بات مجھے سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ یہ ایک مغربی اوپرا ہوگا جس پر عربی زبان اور موسیقی کا اثر ہوگا۔

قاہرہ، دمشق، مسقط اور دبئی مین اوپرا ہاؤسز موجود ہیں اور اب سعودی عرب بھی ریاض میں ایک اوپرا کے لیے ایک شاندار عمارت تعمیر کر رہا ہے۔سعودی عرب کے آرٹس اور کلچر کے شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور ایسی ہی کوششیں کھیل اور دیگر شعبوں کو فروغ دینے کے لیے بھی کی جا رہی ہیں۔ یاد رہے کہ معروف فٹبالر کرسٹانو رونالڈو دو سال قبل ہی سعودی کلب جوائن کر چکے ہیں

شراب خانہ/ فلمی میلہ اور جوا خانہ

پچھلے ہفتے دارالحکومت ریاض میں پہلے شراب خانہ کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے ـ ریاض کے سفارتی علاقے میں موجودہ شراب خانہ کھلنے سے اب سعودیہ میں شراب نوشی کو قانونی حیثیت مل چکی ہے _اس سے قبل سعودی عرب میں جوا خانے کا باقاعدہ افتتاح بھی سابق امام کعبہ شیخ عادل الکبانی کے ہاتھوں کروائے جانے اور سابق امام کعبہ عادل الکبانی کی جوا کھیلتے ویڈیوز سامنے آنے دنیا کی نظریں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھی

دسمبر 2022 میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہونے والے بحیرہ احمر فلمی فیسٹیول میں 61 ملکوں کی 131 فلمیں دکھائی گئیں جو 41 زبانوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔شاہ رخ خان، اے آر رحمان، کاجول، پریانکا چوپڑا، شبانہ اعظمی سمیت لبنان، مصر، افریقہ بلکہ پوری دنیا سے کئی بڑے مغربی فنکار بھی اس دس روزہ فلمی میلے کے مہمان بنے تھے ـ اسکے علاوہ معروف گلوکارہ اور ڈانسر شکیرا نے بھی خواتین کے ایک میوزک پروگرام میں پرفارمنس پیش کی تھی سعودیہ میں اس وقت پچاس سے زائد ملٹی پلیکس سینیما بن چکے ہیں جن میں 430 فلم سکرین کی گنجائش ہے جب کہ مزید پر تیزی سے کام جاری ہے۔

سعودی امیج میں‌بہتری کی کوشش

سعودی عرب پر نظر رکھنے والوں‌کا ماننا ہے کہ مس یونیورس کے لیے امیدوار کو میدان میں لانے کا مطلب سعودی عرب کے انتہائی قدامت پسند امیج کو نرم کرنے کی کوشش میں بڑا قدم ہو گا. سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے وژن کے تحت سیاحوں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی کوششوں‌ میں‌لگے ہوئے ہیں. اسی لیے شوبز انڈسٹری اور انٹرٹینمنٹ کو بھی فروغ دیا جارہا ہے

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہاں روز مرہ زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تمام سعودی شہری ان تبدیلیوں سے خوش ہیں۔درسگاہوں، تفریحی مقامات اور دفاتر میں مرد اور خواتین اب باآسانی گُھل مِل رہے ہوتے ہیں اور وہاں کوئی اخلاقی پولیس بھی نہیں جو خواتین اور مردوں کو ساتھ بیٹھنے سے روکے۔دارالحکومت ریاض میں اب مہینوں تفریحی میلے جاری رہتے ہیں، جن میں دنیا کی مشہور ترین شخصیات شرکت کرتی ہیں۔سعودی معاشرے میں موجود قدامت پسند عناصر ان تبدیلیوں کو قبول نہیں کر رہے اور کچھ ایسے افراد بھی ہیں جنھیں ان تفریحی میلوں میں دلچسپی تو ہے لیکن ٹکٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب وہ ان پروگرامز میں شریک نہیں ہو سکتے۔

 

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے