امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل مخالف بڑھتا ہوا احتجاج
امریکہ کی متعدد بڑی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہرے دن بدن زور پکڑ رہے ہیں، جہاں طلبہ کا اہم مطالبہ ہے کہ یونیورسٹیاں اسرائیلی جارحیت کے لیے فنڈنگ فراہم کرنے والی کمپنیوں میں سے اپنے شیئرز ختم کریں۔ان مظاہروں میں اب امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے اہم تعلیمی ادارے بھی شامل ہو گئے ہیں۔
امریکہ کی مشہور اور بڑی یونیورسٹیاں، جو آئی وی لیگ بھی کہلاتی ہیں، اپنے اعلیٰ تعلیمی معیار کے لیے دنیا بھر میں جانی جاتی ہیں لیکن اس وقت ان کی وجہ شہرت ان اداروں کے احتجاج کرتے طلبہ سے بھرے میدان، فلسطینی پرچم اور پولیس کی پکڑ دھکڑ ہے، جس کے دوران اب تک سینکڑوں طلبہ اور اساتذہ جیل بھیجے جا چکے ہیں۔دوسری جانب ان یونیورسٹیوں کی انتظامیہ ہے جن پر اسرائیل کی حمایت کرنے والے گروپوں کا بہت دباؤ ہے اور جو ان احتجاجوں کو یہودیوں کے خلاف ہرزہ سرائی کا نام دیتے ہیں ۔
سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہونے والے حماس کے حملے اور اس کے جواب میں اسرائیل کی غزہ میں ہونے والی جنگی کارروائیوں میں عام شہریوں کی اموات کی مذمت نے نومبر 2023 میں ہی احتجاج کی شکل اختیار کرلی تھی۔اس وقت بھی امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں تاریخی احتجاج ہوا تھا جس میں پانچ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی تھی لیکن یونیورسٹیوں میں ہونے والے احتجاج قدرے نئے ہیں۔
نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں 100 سے زائد طلبہ کی گرفتاریوں کے بعد کیمپس میں پورے سیمسٹر کے لیے کلاسیں بند کر دی گئی ہیں جب کہ ملک کی کئی اہم سیاسی شخصیات یونیورسٹی کا دورہ کرنے کے علاوہ احتجاج کی کھل کر مخالفت بھی کر چکی ہیں۔کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ سے یکجہتی کے لیے ییل، ایم آئی ٹی، ہارورڈ، کیلی فورنیا کی ہمبالٹ، یو ٹی آسٹن، برکلے اور شکاگو یونیورسٹی پہلے ہی اپنے اپنے مظاہروں اور احتجاجی کیمپوں کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہو چکی ہیں، جس کے بعد بالآخر ڈی سی، میری لینڈ اور ورجینیا کی ریاستوں کے آٹھ ادارے بھی احتجاج کے لیے سامنے آ گئے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کا ایک گراؤنڈ جو یو یارڈ کہلاتا ہے، جمعرات (25 اپریل) سے احتجاج اور جلسہ گاہ کی شکل اختیار کر چکا ہے، جہاں پہنچنے سے بہت پہلے ہی فلسطین کی آزادی اور فائر بندی کے لیے لگائے جانے والے نعرے سنے جا سکتے ہیں ۔کولمبیا اور دیگر یونیورسٹیوں کی طرح یہاں بھی خیمے لگے ہوئے ہیں، جن کی تعداد 20 کے لگ بھگ ہے۔ایک طالبہ سارا (فرضی نام) نے میڈیا کو بتایا کہ ان کا تعلق یونیورسٹی آف میری لینڈ سے ہے اور وہ صبح سے ایک خمیہ لگائے بیٹھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے مطالبات وہی ہیں، جو کولمبیا اور دیگر اداروں میں کیے جا رہے ہیں۔ اس میں سرفہرست مطالبہ یہی ہے کہ یونیورسٹیاں تمام ایسے اداروں سے اپنے شیئرز نکالیں اور فنڈنگ بند کریں جو کسی نہ کسی صورت میں اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب امریکی حکومت نے حال ہی میں اسرائیل کو 26 ارب ڈالر کی فوری امداد دینے کا بل پاس کیا ہے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی طالبہ مشیل نے بتایا کہ انہیں انتظامیہ کی جانب سے خبردار کیا جا چکا ہے کہ اگر شام تک یہ کیمپ نہ ہٹائے گئے تو ان کے خلاف بھی کولمبیا کی طرز کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی اس سے نہیں ڈرئےکیونکہ ان کے بقول یہ ایسا ہی وقت ہے، جو 1960 میں تھا، جب ہر بڑا امریکی تعلیمی ادارہ ویتنام کی جنگ کے خلاف سڑکوں پر تھا۔بقول مشیل کولمبیا میں ہونے والا پولیس کریک ڈاؤن اس ادارے کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔
کولمبیا ماضی میں بھی احتجاج کرنے والے طلبہ کے ساتھ کافی سخت سلوک کر چکا ہے۔ 1968 میں ویتنام جنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہزار طلبہ میں سے 700 کو کیمپس سے حراست میں لے لیا گیا تھا جب کہ 100 طلبہ زخمی بھی ہوئے تھے۔اس سے قبل 60 کی دہائی کے آغاز میں نارتھ کیرولائنا کی ریاست میں نسلی تعصب کی وجہ سے گریزبرو نامی جگہ پر شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے بھی امریکی کیمپسوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔اب جبکہ ہر یونیورسٹی یہود دشمنی اور اسلامو فوبیا کی مذمت کرتی نظر آ رہی ہے، وہیں یہودی طلبہ کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ اس ماحول میں کیمپس آنے سے کترا رہے ہیں اور خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں جہاں فلسطین کے حق میں احتجاج جاری تھا، وہیں چند طلبہ اسرائیلی پرچم لیے خاموشی سے کھڑے تھے۔ ان سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔یونیورسٹیوں میں پولیس کی طلبی اور گرفتاریوں کے بعد فضا شدید تناؤ کا شکار ہے، جہاں مسلمان اور عرب طلبہ کے علاوہ امریکی شہریوں، جن میں یہودی طلبہ کی بھی بڑی تعداد موجود ہے، اپنی ذاتی سکیورٹی کے حوالے سے بھی پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔