امریکی گیڈر بھپکیوں میں آئے بغیر پاکستان اپنے مفادات کو اہمیت کیسے دے؟

pakistan.jpg

واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پاکستان اور ایران کے درمیان بڑھتے تعلقات پر امریکی انتظامیہ کے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے ساتھ تجارت کرنے والوں پاکستانیوں کو ممکنہ امریکی پابندیوں سے خبردار کیا ہے۔

امریکی ترجمان محکمہ خارجہ ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایران سے تجارت کرنے والے افراد، کمپنیوں اور ممالک پر ممکنہ پابندیاں لگ سکتی ہیں، واشنگٹن میں پرس بریفنگ کے دوران امریکی ترجمان سے سوال ہوا کہ ایرانی صدر پاکستان کے دورے پر ہیں اور ان کے دورے کے دوران پاکستان اور ایران نے 8 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے اور دو طرفہ تجارت کو 10 ارب ڈالر تک لے جانے پر بھی اتفاق کیا، امریکا ان معاہدوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ صحافی کے اس سوال کے جواب میں امریکی ترجمان محکمہ خارجہ ویدانت پٹیل نے کہا کہ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ایران سے تجارت کرنے والوں پر ممکنہ پابندیاں لگ سکتی ہیں، تمام ممالک کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں، تاہم پاکستان خارجہ پالیسی کے تحت ایران کے ساتھ معاملات دیکھ سکتا ہے، واضح رہے کہ 22 اپریل کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 3 روزہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچے تھے.

امریکی حکومت نے صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ ایران سے قبل پاکستان کے میزائل پروگرام سے مربوط دو چینی اور ایک بیلا روس کی کمپنیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے اِن کمپنیوں کے امریکہ میں موجود اثاثوں کو ضبط کرنے کا اعلان کیا ہے، پاکستان نے واشنگٹن کے اس سنگین اقدام پر صرف رسمی اور انہتائی نرم جملوں کیساتھ احتجاج کیا ہے مگر پاکستان کا ردعمل اس سے کہیں زیادہ ہونا چاہیئے تھا، پاکستان کے دفتر خارجہ کو چاہیئے کہ وہ امریکی سفیر کو طلب کرکے پاکستان کے میزائل پروگرام کو نقصان پہنچانے کے امریکی حکومت کے فیصلے پر اسلام آباد کے شدید اور سخت ردعمل سے آگاہ کرئے جو پاکستانی قوم کے احساسات کا ترجمان ہو، امریکہ وہ استکباری طاقت ہے جس نے ہمیشہ پاکستان کی واشنگٹن کیلئے قربانیوں کو نظرانداز کیا ہے، پاکستان نے 60 کی دہائی میں امریکی خوشنودی کی خاطر سوویت یونین کے شدید غضب کا سامنا کیا، جب امریکی بی 2 طیارے پشاور سے روس کی جاسوسی کیلئے پرواز کیا کرتے تھے، 70 کی دہائی میں ایٹمی پروگرام کے آغاز کیساتھ ہی پاکستانیوں نے امریکی طوطا چشمی کا قریب سے مشاہدہ کیا، جس کے بعد امریکی وزیر خارجہ ہنگری کیسنجر نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی پروگرام سے دستبردار نہ ہونے کی صورت میں عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی، افسوس کہ پاکستان کی فوجی مقتدرہ اور سیاستدان حقیقت سے بے خبر رہے اور اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی گھاٹ پر لٹکا دیا گیا، پاکستان کی افسوسناک تاریخ میں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق، کسی حد تک نوازشریف اور پرویز مشرف وہ سربراہ مملکت اور حکومت تھے جن کی عدم دور اندیشی نے پاکستان کو اس حال پر پہنچا دیا کہ ہم دنیا میں ایک مذاق بن چکے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت گرانے کیلئے امریکہ نے پاکستانی سیاستدانوں کو خوب استعمال کیا اور مارشل پلس کے ذریعے اُن میں سے کئی سیاستدانوں کو ابھی تک اقتدار میں رکھا ہوا ہے جبکہ عمران خان عوامی حمایت رکھنے کے باوجود پس دیوار زندان اپنی زندگی کے دن گن رہا ہے، اس پس منظر میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا دورہ کیا اور وہ اس شکایت کیساتھ کراچی سے روآنہ ہوئے ہیں کہ انہیں پاکستانی عوام سے براہ راست مخاطب ہونے سے محروم رکھا گیا، وہ اپنے دورے میں امریکہ اور مغرب کی خبیث حکومتوں کی فلسطین اور مسلمانوں کے خلاف اقدامات سے پاکستانی عوام کو آگاہ کنا چاہتے تھے، صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان توقعات اور اُمیدیں کے مطابق نہیں رہا کیونکہ امریکی دھمکیوں نے پاکستان کی مقتدرہ کو خوفذدہ کردیا تھا، توانائی کے منصوبوں کی تکمیل پاکستان کیلئے ناگزیر ہے مگر ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر کسی قسم کی پیشرفت نظر نہیں آئی، اب یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ پاکستان اپنی سرحدی حدود میں صرف 80 کیلومیٹر گیس پائپ لائن بچھانے کا منظور شدہ منصوبہ مکمل کرتا ہے یا امریکی دباؤ اور اُسکی گیدڑ بھپکیوں میں آتا ہے، امریکی پابندیوں کے باوجود پاکستان اور ایران کے درمیان رسمی اور غیر رسمی تجارت کا حجم 10 ارب ڈالر سے زیادہ ہے لیکن غیر رسمی تجارت کی وجہ سے پاکستان خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے، پاکستان کی حکومت کو چاہیئے کہ وہ امریکی گیڈر بھپکیوں میں آئے بغیر اپنے مفادات کو پیش نظر رکھے اور چند کروڑ ڈالر کے بدلے پاکستانیوں کی عزت نفس فروخت کرنے سے باز رہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے