زینبیون بریگیڈ پر پابندی ” امریکی خوشنودی یا سعودی دورے کا پیش خیمہ

Zainabiun.jpeg

4 سال بعد دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں پہلی مرتبہ اضافے کے بعد ملک میں کالعدم تنظیموں کی تعداد 79 ہوگئی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق فہرست میں تازہ ترین اضافہ زینبیون بریگیڈ (زیڈ بی) کا کیا گیا ہے، جو ایک عسکریت پسند گروپ ہے، جسے امریکی محکمہ خارجہ نے 2019 میں دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔جنوری میں ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے بعد زینبیون بریگیڈ پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جبکہ 29 مارچ کو اس کا نفاذ ہوا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ زینبیون بریگیڈ سے منسلک کسی بھی فرد کی پاکستان میں کسی قسم کی فرقہ وارانہ کاروائی میں قطعی کوئی تعلق نہیں اسکے باوجود اس پر پابندی کی واحد وجہ امریکی پریشر ہو سکتا ہے

سعودی پریشر کا امکان

کچھ مبصرین اسے واشنگٹن کو خوش کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھ رہے ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ سعودی وزیرخارجہ کی قیادت میں وفد کے حالیہ دورے کے تناظر میں ریاض کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا گیا۔دفاعی تجزیہ کار محمد عامر رانا کے مطابق زینبیون بریگیڈ کے بارے میں خیال کہا جاتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں پاسداران انقلاب کو ہتھیار فراہم کرتی ہے۔

گزشتہ ماہ یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے مبینہ زینبیوں بریگیڈ کے ممبران کو مشرق وسطیٰ میں پاسداران انقلاب کو ہتھیار پہنچانے کے الزام میں بین الاقوامی سمندر سے گرفتار کیا گیا ہے۔ایک اور واقعے میں شام میں پاکستانی نژاد کمانڈر کی حادثاتی موت کے بعد پاکستان کو اس تنظیم پر پابندی لگانے کا موقع فراہم کیا، خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس زینبیون بریگیڈ کے عراق اور شام کے تنازع کے لیے پاکستان میں جنگجوؤں کی بھرتیوں میں ملوث ہونے کے کافی ثبوت موجود ہیں لیکن ایرانی سرزمین پر باغی بلوچ انتہا پسند گروپوں کی مبینہ موجودگی سے منسلک حالات کے سبب حکومت نے پہلے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔کیونکہ پاکستان میں اس تنظیم کی طرف سے کوئی بھی ایسی کاروائی نہیں کی گئی جس سے پاکستانی رٹ کو نقصان پہنچا ہو

ایران پاسدران انقلاب افواج کی جانب سے یہ گروپ 2011 میں شام میں عوامی بغاوت کے بعد تشکیل دیا گیا تھا، زینبیون بریگیڈ جسےلواء زینبیون بھی کہا جاتا ہے، پر الزام ہے کہ وہ پاکستان میں مقیم شیعہ کمیونٹی کو شام کے حکمران بشارالاسد جوکہ ایران اور روس کے قریبی اتحادی ہیں، کی مخالفت کرنے والی قوتوں کے خلاف لڑنے کے لیے متحرک کررہا ہے۔مذکورہ گروپ نے 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے قدس فورس کے ساتھ اپنے تعلقات کا بھی اعتراف کیا جبکہ اس گروپ نے حال ہی میں پاسدارانِ انقلاب کے احکامات پر عمل کرنے کا اعادہ بھی کیا ہے۔کالعدم تنظیموں کی فہرست بنانے کے عمل کا آغاز 14 اگست 2001 کو ہوا۔ جب لشکر جھنگوی اور سپاہِ محمد پاکستان کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔بعدازاں 14 جنوری 2002 کو حکومت نے جیشِ محمد، لشکرِ طیبہ، سپاہ صحابہ پاکستان، تحریکِ اسلامی اور تحریکِ نفاذ شریعتِ محمدی کو کالعدم قرار دیا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ ماضی میں شیعہ عسکریت پسند تنظیموں کے لوگ شام میں اس وقت گئے تھے جب کچھ شیعہ مقدس مقامات کو داعش نے ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی تھی اور ان پر حملہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ انہوں نےنمائندہ بصیر میڈیا کو بتایا، ”پنجاب سے درجنوں جبکہ پارہ چنار، کراچی اور ملک کے دوسرے علاقوں سے ایک بڑی تعداد میں لوگ ان مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے پہنچے تھے اور انہوں نے مبینہ طور پر زینبیون بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی تھی۔احسن رضا کے مطابق ان میں سےکچھ لوگوں کو واپسی پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ” اور شیعہ تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ وہ اب گمشدہ افراد کی فہرست میں ہیں جبکہ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو ایران میں ہی سکونت پذیر ہو گئے ہیں۔

اس نوٹیفکیشن کے ٹائمنگ کے حوالے سے احسن رضا کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق مشرق وسطیٰ کی کشیدگی سے ہے۔ ”قوی امکان ہے کہ ایران اسرائیل کو جواب دینے کے لیے کوئی حملہ کرے اور یقینا اس کے بعد اسرائیل کا جوابی حملہ ہوگا۔ اس جوابی حملے میں ممکنہ طور پر ایران، عراق اور شام میں شیعہ مقدس مقامات کو بھی ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔احسن رضا کا کہنا تھا کہ کیونکہ پاکستانی شیعوں کی ان مقدس مقامات سے جذباتی اور روحانی وابستگی ہے۔ ”اس لیے وہ ان کی حفاظت کے لیے ممکنہ طور پر کسی بھی گروپ کو جوائن کر سکتے ہیں۔ اس شمولیت کو پہلے سے ناکام بنانے کے لیے زینبیون بریگیڈ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔‘‘

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک شیعہ تنظیم کے سابق عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ ہمارے نمائندے کو بتایا، ”اپنے مقدس مقامات کے لیے شیعہ نوجوان ماضی میں بھی پاکستان بھر سے زینبیون بریگیڈ میں گئے تھے۔ اس نوٹیفکیشن کی تفصیل جاننے کے لیے ہم نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، آئی جی پنجاب عثمان انور اور دیگر حکومتی ذمہ داروں سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں پیغامات بھی بھیجے۔ تاہم ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ اداروں کو ابھی تک اس نوٹیفیکیشن کا بھی علم نہیں ہے۔ کاؤنٹر ٹیررازم پنجاب کے ایک ذمہ دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ابھی تک یہ نوٹیفکیشن موصول نہیں ہوا جیسے ہی اس کی اطلاعات ہمیں ملیں گی، ہم وہ میڈیا کے ساتھ شیئر کریں گے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے