امریکی نظریے کے شعلے

images-9.jpeg

پہلی نظر میں اکثر افراد یہی سوچتے ہیں کہ امریکی معاشرہ ایک غیر نظریاتی معاشرہ ہے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کیوبا، ایران، چین وغیرہ جیسے معاشرے نظریے (آئیڈیالوجی) نامی مسئلے کا شکار ہیں (اگر ہم آئیڈیالوجی کو اس کے منفی معنی میں دیکھیں)، لیکن مثال کے طور پر مغربی ممالک جیسے فرانس، برطانیہ اور امریکہ، نظریاتی نہیں ہیں. میری نظر میں یہ دنیا کی موجودہ صورتحال کے بارے میں غلط ترین آراء میں سے ایک ہے۔ اگر ہم امریکہ میں سسٹمک اور مقامی انداز میں ڈھلے نظریے کو نہیں دیکھتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ لبرل ازم یا سرمایہ داری کا نظریہ اس قدر پھیل چکا ہے اور اس نے معاشرے کو اس انداز میں تشکیل دیا ہے کہ ہمیں اس ہوا کی طرح جس میں ہم سانس لیتے ہیں، اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ ہم اس وقت ہوا کے بارے میں سوچتے ہیں جب کوئی ہمارا سانس روک دیتا ہے اور ہم ایمرجنسی میں ہوتے ہیں۔

 

مغربی نظریہ انتہائی نازک اور بحرانی حالات میں خود کو ظاہر کرتا ہے۔ بحران اس معنی میں کہ جب آپ امریکہ میں مکمل اجنبیت کا سامنا کرتے ہیں تو ایسے میں سمجھ سکتے ہیں کہ اس معاشرے میں کیسا طاقتور نظریہ موجود تھا لیکن ہم نے کبھی اس کا احساس نہیں کیا۔ ایسے ہی حساس اور بحرانی حالات کی ایک مثال مسئلہ فلسطین ہے جس سے آج ہم روبرو ہیں۔ غزہ میں انسانوں کا قتل عام اور نسل کشی انجام پاتی ہے لیکن اگر کوئی فلسطین کے بارے میں ایک جملہ بھی لکھ دے تو اسے یونیورسٹی سے نکال دیا جاتا ہے۔ گوگل کے 28 ملازمین کو محض اس لئے نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کو انٹیلی جنس معلومات فروخت کرنے کی پالیسیوں پر اعتراض کیا ہے۔ ایموری یونیورسٹی سکول آف میڈیسن میں ہیماٹولوجی اور آنکولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر عبیر ابویعبیس کو واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے مظاہروں میں شرکت اور سوشل میڈیا پر فلسطین کی حمایت کرنے پر یونیورسٹی سے نکال دیا جاتا ہے۔

فلسطینی عوام کی حمایت کے بعد امریکہ کے متعدد ٹی وی چینلز کے اینکر پرسنز اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اسی طرح "یہود دشمنی” کے بہانے جبر کی حالیہ لہر کی جانب بھی اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا بہانہ جس کے باعث ہارورڈ، ایم آئی ٹی، پنسلوانیا اور میساچوسٹس یونیورسٹیز کے سربراہوں کو صرف اس وجہ سے عدالتی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کی یونیورسٹیوں کے طلباء نے فلسطین کی حمایت کی ہے۔ اسی عدالتی کاروائی کے دوران پنسلوانیا یونیورسٹی کی سربراہ کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ آپ غور کریں کہ کریم بینزما جیسے شخص پر اپنی ایک ٹویٹ میں فلسطینی عوام کی حمایت کے باعث اخوان المسلمین سے تعلقات کا الزام عائد کیا جا رہا ہے اور ان کی شہریت منسوخ کر کے ان سے گولڈن بال واپس لئے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا ایک اشتہار شائع کرنے کی وجہ سے امریکی جریدے "آرٹ فورم” نے اپنے چیف ایڈیٹر ڈیوڈ ویلاسکو کو یہ کہتے ہوئے برطرف کردیا کہ اس اشتہار کی اشاعت ان کے میڈیا اسٹینڈرڈز پر پوری نہیں اترتی! یہ معاملہ اتنا اوپر چلا جاتا ہے کہ حتی آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ سوزن سرینڈن کو بھی پروڈکشن کمپنی اسپائی گلاس اپنی فلم "اسکریم 7” کے پروجیکٹ سے نکال باہر کرتی ہے۔ یہ چند مثالیں ہیں۔ ایسے ہزاروں دوسرے لوگوں کے ناموں کی فہرست بھی پیش کی جا سکتی ہے جو محض فلسطین میں نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اب آپ سمجھتے ہیں کہ یہ معاشرہ غیر نظریاتی ہے؟ پس وہ مختلف مسائل سے کیوں اس انداز میں نمٹتا ہے؟ اہم نکتہ یہ ہے کہ تمام معاشرے کسی نہ کسی طرح ایک نظریے سے جڑے ہوئے ہیں۔

 

چرچ سے جدید ریاست کی طرف سفر کرتے ہوئے تمام مغربی معاشروں نے نظریہ نامی "کرائے کا رحم” استعمال کیا ہے۔ ایران جیسے ممالک کے بارے میں یہ تاثر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ نظریہ یا آئیڈیالوجی کے تصور سے بیسویں صدی عیسوی میں قوم پرستی کی شکل میں آشنا ہوئے ہیں۔ اس کے بعد یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ مختلف قسم کے نظریات پائے جانے کے باوجود آخرکار اسلام پسندی نے غلبہ پا لیا اور سیاسی طاقت اپنے ہاتھ میں لینے میں کامیاب رہی۔ ایران کے بارے میں یہ تصور پیش کرنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ دیگر مغربی معاشرے نظریات سے عاری ہیں۔ یہ تمام معاشرے نظریہ رکھتے ہیں اور ان کے نظریات بہت گہرے اور مضبوط ہیں۔ اسی وجہ سے بیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں فوکو کا خیال ہے کہ جدید معاشروں میں طاقت کی ٹیکنالوجیز موجود ہیں۔ فوکو فرانس اور امریکہ جیسے جدید مغربی معاشروں کی بات کر رہا ہے۔

وہ panopticon یا "جامع نگاہ کی حامل طاقت” کا تصور پیش کرتا ہے۔ جامع نگاہ کی حامل طاقت، مطلق العنان طاقت سے برتر ہے۔ آپ مطلق العنان طاقت کو محسوس کر کے اس کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں اور اس سے آگاہ ہو سکتے ہیں لیکن جامع نگاہ کی حامل طاقت ایسی طاقت ہے جس نے آپ اور آپ کے معاشرے پر یوں تسلط پیدا کر رکھا ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے، لیکن آپ حتی اس کی موجودگی تک کا احساس نہیں کرتے جبکہ وہ لاشعوری طور پر آپ کی زندگی کا رخ بدلتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر مشرقی یورپ میں مطلق العنان طاقت موجود تھی۔ وہ طاقت مکمل طور پر معاشرے کو کنٹرول کر سکتی تھی لیکن معاشرے اور طاقت کے درمیان سرحد واضح تھی۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ میں ایسی چیز دیکھی نہیں جا سکتی۔

 

لوگ اس وقت معاشرے میں طاقت کی بھرپور موجودگی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں جب وہ حادثاتی طور پر ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ فلسطین میں ہوا ہے۔ ایسے مواقع پر جدید ریاست اپنی مداخلت پسند طاقت کے ہتھکنڈوں کو عوامی حلقوں کے بیچ لے آتی ہے اور یونیورسٹی، میڈیا اور ہر چیز کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس کی ایک اور اچھی مثال 2003ء میں عراق جنگ ہے۔ جنگ شروع ہوتے ہی 30 لاکھ برطانوی شہری سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے لندن کی طرف پیدل مارچ کرنا شروع کر دیا تاکہ اپنا یہ موقف بیان کر سکیں کہ برطانیہ کو جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن ٹونی بلیئر نے اپنا کام کر دکھایا۔ مگر یہ نہیں کہا جاتا کہ جمہوری حکومتوں میں اگر سول سوسائٹی متحرک ہو جائے تو وہ حکومتوں کا رخ بدل دیتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ طاقت اپنی مرضی کرتی ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریہ اپنا اثر دکھا رہا ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے