وعدہ صادق کے بارے میں دس اہم نکات

03fht99o_israel-iran-war-_625x300_14_April_24.webp

اتوار بروز 14 اپریل 2024ء کا دن دنیا، خاص طور پر مغربی ایشیا اور اسلامی دنیا کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش دن بن چکا ہے۔ اس دن اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم پر اس کی ناجائز پیدائش سے لے کر آج تک سب سے بڑا ہائبرڈ فضائی حملہ انجام دیا جس میں تین سو سے زائد ڈرون طیارے، ستر کے قریب کروز میزائل اور اسی کے قریب بیلسٹک میزائل غاصب صیہونی رژیم کی اہم فوجی اور انٹیلی جنس تنصیبات پر داغے گئے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے اس عظیم حملے کو جو دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر یکم اپریل 2024ء کے دن انجام پانے والی صیہونی جارحیت اور اس میں شہید ہونے والے اعلی سطحی فوجی کمانڈرز کے انتقام کے طور پر انجام پایا ہے، "وعدہ صادق” کا نام دیا ہے۔ پرسوں سے آج تک یہ حملہ دنیا بھر کی اخبار اور ذرائع ابلاغ میں پہلی سرخی بنا ہوا ہے۔

دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم سے مربوط حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران کا یہ میزائل اور ڈرون حملہ مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی جانب داغے گئے اکثر میزائل اور ڈرون طیارے اپنے نشانے پر لگنے سے پہلے ہی مار گرا دیے گئے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی میزائل طاقت اور فوجی صلاحیتیں بہت ہی محدود ہیں۔ اسی طرح صیہونی ذرائع ابلاغ اور صیہونی رژیم کے حامی ممالک کی پروپیگنڈہ مشینری یہ تاثر دینے کی کوشش میں بھی مصروف ہے کہ اسرائیل اس حملے میں مظلوم واقع ہوا ہے اور وہ "شرپسند طاقتوں” کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے میں مصروف ہے۔ یوں وہ غزہ میں انجام پانے والے اپنے غیر انسانی جرائم سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے درپے ہے۔ لیکن اس بارے میں دس اہم نکات پائے جاتے ہیں جن پر توجہ ضروری ہے:

1)۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم وعدہ صادق آپریشن کے بارے میں جو تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہ سراسر جھوٹ اور مغالطے پر مبنی ہے جس کا مقصد اسرائیلی اور علاقائی رائے عامہ کو یہ سوچنے پر مجبور کرنا ہے کہ اسرائیل بہت زیادہ فوجی صلاحیتوں کا مالک ہے۔
2)۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے نہ صرف فوجی بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی ایک ہائبرڈ حملے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ لہذا ایران نے وعدہ صادق آپریشن کے فوجی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ میڈیا وار کے شعبے میں بھی بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یوں ایران نے وسیع تر جنگ سے بچتے ہوئے مطلوبہ فوجی اور سیاسی مقاصد بھی حاصل کر لئے ہیں۔ درحقیقت اسلامی جمہوریہ ایران نے مکمل منصوبہ بندی کے تحت وعدہ صادق آپریشن انجام دیا ہے تاکہ اسرائیل کے خلاف ڈیٹرنس پاور پر زور دیتے ہوئے ہر قسم کی جارحیت کی صورت میں اپنے اسٹریٹجک موقف اور سرزمین کی حفاظت کر سکے۔

3)۔ ایران نے اس آپریشن کو خفیہ نہیں رکھا اور جیسا کہ کچھ تجزیات میں کہا گیا ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ مقبوضہ فلسطین سے ایران کا جغرافیائی فاصلہ کم ہے، بلکہ ایران نے جان بوجھ کر جوابی کاروائی کا پہلے سے اعلان کر دیا تھا اور اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ امریکہ کی جاسوسی ایجنسیاں چند دن پہلے ہی اسرائیل کو اس حملے کی وارننگ دے چکی تھیں۔ لہذا سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے مقبوضہ فلسطین کی جانب ڈرون روانہ کرنے کے ساتھ ہی وعدہ صادق آپریشن کے آغاز کا اعلان کر دیا اور اس پیچیدہ کاروائی کے آغاز کا اعلان کرنے کے بعد اس بات پر زور دیا کہ اگلے مرحلے میں بیلسٹک میزائل فائر کئے جائیں گے۔
4)۔ ایران کی جانب سے وعدہ صادق آپریشن اس انداز میں انجام دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایران اسرائیلیوں کو ایک پیغام بھیجنا چاہتا تھا۔ ہمیں اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ ایران نے صرف اسرائیل کے فوجی مراکز کو نشانہ بنایا ہے جبکہ سویلین مراکز اس کی ہٹ لسٹ میں شامل نہیں تھے۔ لہذا ایران کا یہ حملہ ایک فوجی سیاسی ہائبرڈ آپریشن تھا۔

5)۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیل کے خلاف جوابی کاروائی میں اپنے پاس موجود جدید ترین ڈرون طیارے اور میزائل استعمال نہیں کئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وعدہ صادق آپریشن میں ایران کی پہلی ترجیح وسیع تعداد میں ڈرون طیارے اور میزائل فائر کر کے دشمن کو مرعوب کرنا تھا اور وہ یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
6)۔ اسرائیلی جس چیز کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اس کے برعکس، یہ رژیم ایرانی میزائل اور ڈرون مار گرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور جو ڈرون اور میزائل فضا میں تباہ کئے گئے ہیں وہ بھی امریکی ایئر ڈیفنس سسٹم اور اسرائیل کے دیگر حامی ممالک کی جانب سے تباہ ہوئے ہیں۔ یوں ایران کا ایک اور مقصد بھی پورا ہو گیا ہے جو اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کی کمزوری عیاں کرنے پر مشتمل تھا۔
7)۔ اسٹریٹجک لحاظ سے ایران کے اس آپریشن کے بعد واضح ہو گیا کہ اسرائیل کس حد تک اور مکمل طور پر اپنے عالمی اور علاقائی اتحادیوں کا محتاج ہے۔ ایسے میں ایک عرب ملک اردن نے ایرانی میزائلوں کا مقابلہ کر کے اسرائیل کی مدد کرنے کے ذریعے خود کو عرب دنیا کی رائے عامہ میں شرمسار کر لیا ہے۔ یوں وعدہ صادق آپریشن کے ذریعے علاقائی اور عالمی سطح پر غاصب صیہونی رژیم کے مدافعین بھی واضح ہو گئے ہیں۔

8)۔ ایران اسرائیل پر ایسے انداز میں ضرب لگانے میں کامیاب ہوا ہے جو غاصب صیہونی رژیم کیلئے ناقابل تصور یا غیر متوقع تھا۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ اسرائیل نے ایران کی جوابی کاروائی کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے تمام کارڈ سامنے کھول کر رکھ دیے لیکن دوسری طرف ایران نے فوجی حملے میں اپنے سارے کارڈ کھول کر سامنے نہیں رکھے اور اس کی میزائل طاقت کا بڑا حصہ اب بھی ناشناختہ ہے۔
9)۔ وعدہ صادق آپریشن نے غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامی ممالک کی دفاعی اور فوجی صلاحیتوں کو پہچاننے میں ایران کی بہت زیادہ مدد کی ہے اور اس سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ آئندہ کسی بھی ممکنہ زیادہ بڑے فوجی ٹکراو میں بہت مفید اور مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
10)۔ اسرائیل کے خلاف ایران کے جوابی حملے نے خطے میں سرگرم طاقتوں، خاص طور پر امریکہ اور ایران کا وژن واضح کر دیا ہے۔ ایک مسلمہ نکتہ یہ سامنے آیا ہے کہ دونوں ممالک وسیع پیمانے پر آپس میں فوجی ٹکراو نہیں چاہتے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے