عاصمہ شیرازی پر مقدمہ اورنجی چینل کی معذرت
پاکستان کی معروف خاتون صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کے خلاف غلط خبر نشر کرنے پر ملک کے نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی نیوز‘ نے معذرت نشر کی ہے۔یہ معذرت چینل نے غیر روایتی انداز میں نشر کی ہے جس میں اس کے نیوز روم کا پس منظر یا سیٹ نظر نہیں آ رہا جہاں سے عام طور پر خبریں نشر کی جاتی ہیں بلکہ پش منظر سیاہ ہے۔
اس معذرت میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شلوار قمیض کے اوپر کورٹ پہنے ہوئے ایک نیوز اینکر نے اعلان کیا کہ ’19 اور 20 جنوری 2022 کو اے آر وائی نیوز نے سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت کی کارروائی رپورٹ کی۔ دوران سماعت سپریم کورٹ کے فاضل جج نے ریمارکس دیے جو خبر میں رپورٹ کیے گئے۔ یہ واضح کیا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی کا نام نہیں لیا تھا، نہ ہی یہ کیس عاصمہ شیرازی سے متعلق تھا۔اے آر وائی نیوز میں ان کی تصویر اور ویڈیوز نشر ہوئیں، اے آر وائی نیوز کا مقصد سینیئر صحافی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا نہیں تھا، درگزر کیا جائے۔
سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی نے اس معذرت کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’الحمداللہ عدالتوں میں اپنے خلاف چلائی جانے والی فیک نیوز مخالف دو سال کی قانونی جنگ کے بعد اے آر وائی نے یہ نشر کیا۔انہوں نے لکھا کہ ان دو سالوں کے دوران ایک فیک نیوز کی بنیاد پر ان کی کردار کشی کی منظم مہمات چلائی گئیں۔
مقدمہ کیا تھا؟
نجی ٹی وی چینل نے صحافی عمران میر اور شفقت عمران کی ایف آئی اے کی جانب سے گرفتاری پر از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے ریمارکس کو عاصمہ شیرازی سے منسوب کر کے 19 اور 20 جنوری 2022 کو متعدد بار وہ خبر نشر کی تھی جس پر نجی ٹی وی چینل نے اب معذرت کی ہے۔اپنے خلاف غلط خبر نشر کیے جانے کے بعد خاتون صحافی نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا کے نگراں ادارے پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹس سے رجوع کیا تھا۔
عاصمہ شیرازی نے بصیر میڈیا کو بتایا کہ ’نجی ٹی وی چینل کے خلاف میں نے قانونی جنگ شروع سے لڑی ہے جس کی ابتدا پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹس سے کی جہاں میری درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی گئی تھی کہ میرے پاس ہرجانے کا دعویٰ دائر کرنے کے لیے فورم موجود ہے لہذا اس فورم پر درخواست دی جائے۔عاصمہ شیرازی نے بتایا کہ ’پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹس میں کارروائی نہ کیے جانے کی صورت میں انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے دسمبر 2023 کو پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹس کے 21 دسمبر 2022 کے فیصلے کے خلاف سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی کی اپیل منظور کرتے ہوئے 14 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینئر صحافی عاصمہ شیرازی کے خلاف غلط خبر نشر کرنے پر نجی چینل ’اے آر وائی نیوز‘ کو معافی نشر کرنے اور 50 ہزار روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’اپیل کنندہ کے مطابق اے آر وائی نیوز نے ازخود نوٹس کیس کی عدالتی کارروائی نشر کرتے ہوئے تصویر اور نام چلا کر ناظرین کو یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ ججز نے صحافی عاصمہ شیرازی کی صحافت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف ریمارکس دیے جبکہ حقیقت میں عدالت میں اپیل کنندہ کا کوئی ذکر نہیں ہوا تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ پیمرا قانون کے تحت چینلز کی ذمہ داری ہے کہ خبر کو درست انداز میں نشر کیا جائے، پیمرا آرڈیننس کے تحت کسی کے خلاف غلط، ہراسانی پر مبنی، ہتک آمیز خبر نہیں چلائی جا سکتی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ غلط خبر کی وضاحت کے لیے ’اے آر وائی نیوز‘ معافی نشر کرے اور صحافی عاصمہ شیرازی کو 50 ہزار روپے ہرجانے کی ادائیگی کرے، جبکہ عاصمہ شیرازی چاہیں تو چینل کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ بھی دائر کر سکتی ہیں۔یہ معاملہ جب اپیل پر سپریم کورٹ پہنچا تو سماعت کے دوران اے آر وائی نیوز کے وکلا نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس معاملے پر تردیدی و وضاحتی بیان نشر کر کے معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں، جس کے بعد عدالت نے وکلا سے کہا کہ وہ اس معاملے پر غور کر لیں ورنہ عدالت فیصلہ جاری کرے گی۔اے آر وائی نیوز کی جانب سے وضاحتی بیان نشر کرنے کا معاملہ طے ہونے پر سپریم کورٹ نے وضاحتی بیان نشر کرنے کی شرط کو فیصلے کا حصہ بناتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا جس کے بعد یہ بیان نشر کیا گیا۔