ایران اور ایرانی معاشرہ۔ جاوید چوہدری
ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر یہ کہیں ایرانی پاکستانیوں کو پسند نہیں کرتے تو یہ غلط نہیں ہو گا‘ اس کی دو بڑی بنیادی وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ زائرین ہیں۔
پاکستان سے ہر سال چھ سات لاکھ زائرین زیارتوں کے لیے ایران جاتے ہیں‘ بدقسمتی سے ان لوگوں کی اکثریت ان پڑھ اور غریب ہوتی ہے اور یہ ان کی زندگی کا پہلا غیرملکی سفر ہوتا ہے چناں چہ یہ ایران میں جگہ جگہ حماقتیں کرتے ہیں جس سے ملک کا تاثر خراب ہوتا ہے۔
زائرین کو ایران لے جانے والے وینڈر بھی اچھے لوگ نہیں ہیں‘ یہ پیسے بچانے کے لیے انھیں گندی اور پرانی بسوں میں لے کر جاتے ہیں‘ انھیں برے ہوٹلوں یا سرائوں میں ٹھہراتے ہیں اور بعض اوقات انھیں امام رضاؒ کے روضے پر بے آسرا چھوڑ دیتے ہیں اور زائرین روضے اور سڑکوں پر لیٹ جاتے ہیں‘ کھانا بھی مانگ کر کھاتے ہیں اور پھیری بازی بھی کر تے ہیں چناں چہ پاکستانی مشہد میں مسکین کہلاتے ہیں۔
ایران میں یہ دعویٰ عام ہے آپ کو سڑک پر اگر کوئی مفلوک الحال یا گندہ شخص نظر آئے تو وہ لازماً پاکستانی ہو گا‘ دوسرا کوئٹہ سے تفتان بارڈر تک سڑک ویران ہے اور اس کے دائیں بائیں کوئی ریسٹ ایریا نہیں‘ سرحد پر بھی کوئی ہال‘ ہوٹل یا ریستوران نہیں ہے‘ زائرین کھلے آسمان تلے پڑے رہتے ہیں اور اسی بری حالت میں ایران میں داخل ہو جاتے ہیں جب کہ دوسری طرف ایران میں باقاعدہ امیگریشن ہالز‘ ریسٹ ایریاز‘ ہوٹلز اور ریستوران ہیں اور زاہدان ایک مکمل اور جدید شہر ہے وہاں سے ریل‘ بسیں اور فلائیٹس چلتی ہیں‘ یہ فرق بھی پاکستان کا امیج خراب کر رہا ہے اور آخری وجہ امریکی بلاک ہے۔
ایران 45 سال سے امریکا کو دشمن سمجھ رہا ہے جب کہ ہم امریکا کے دوست ہیں‘ اس وجہ سے بھی ایرانی ہمیں پسند نہیں کرتے‘ ہمیں فوری طور پر زائرین پر توجہ دینی ہو گی‘ حکومت رضا فائونڈیشن کے ساتھ مل کر کوئٹہ سے زاہدان تک زائرین کی ٹرین چلا سکتی ہے‘ رضا فاؤنڈیشن ٹرین بنا اور چلا کر دینے کے لیے تیار ہے‘ دوسرا ہم ایران کے ساتھ مل کر زائرین کے لیے جدید بس سروس بھی چلا سکتے ہیں اور کوئٹہ تفتان روڈ پر ریسٹ ایریاز بھی بنا سکتے ہیں اور زائرین کی ٹریننگ کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں‘حکومت زائرین کو لے جانے والے لوگوں اور کمپنیوں کو بھی رجسٹرڈ کر کے ان کی ٹریننگ کرے‘ آخر اس میں کیا حرج ہے؟۔
ہم ایران کے بارے میں مغالطوں کا شکار بھی ہیں‘ ہم اسے غیر ترقی یافتہ اور غریب ملک سمجھتے ہیں جب کہ ایران اس کے بالکل برعکس انتہائی ماڈرن اور یورپ کا ہم پلہ ملک ہے‘ پورا ملک روڈ نیٹ ورکس‘ ریلوے اور فلائیٹس کنکشنز سے جڑا ہوا ہے‘ ایران میں 13 ائیرلائینز اور ساڑھے تین سو ائیرپورٹس ہیں‘ سڑکوں کے کنارے تجاوزات اور گند بھی نظر نہیں آتا‘ بھکاری بھی دکھائی نہیں دیتے‘ لاء اینڈ آرڈر بھی مثالی ہے‘ خواتین ساری ساری رات باہر پھرتی رہتی ہیں اور کسی کو ان کی طرف دیکھنے کی جرات نہیں ہوتی‘ ٹرینیں بہت اچھی اور صاف ستھری ہیں۔
اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے یہ لوگ سوئی سے لے کر ٹرک تک خود بنا رہے ہیں‘ ہر شہر میں بیسیوں مالز ہیں اور ان میں 90 فیصد مصنوعات ایران میڈ ہیں اور یہ کوالٹی میں یورپ سے بڑھ کر ہیں‘ایرانیوں نے پہاڑوں کے اندر ٹنلز بنا کر سڑکیں اور ریلوے لائنیں چلا دی ہیں‘ ہم صرف لواری ٹنل کو تعمیراتی معجزہ قرار دے رہے ہیں جب کہ ایران میں اس قسم کی سیکڑوں ٹنلز ہیں‘ شہر بڑے‘ جدید اور صاف ستھرے ہیں‘ کسی جگہ کچرا دکھائی نہیں دیتا۔
میونسپل کمیٹیاں (یہ انھیں فارسی میں شہرداری کہتے ہیں) رات کے وقت سڑکیں اور گلیاں دھوتی ہیں‘ آپ کو کسی چہرے پر مسکینی‘ بے زاری اور غربت نظر نہیں آتی‘ ایرانی خوب صورت اور صاف ستھرے لباس پہنتے ہیں‘ عام چھوٹے ورکرز بھی صاحب دکھائی دیتے ہیں‘ خواتین میں صفائی اور سلیقہ دونوں ہیں‘ تہران میں ناک سیدھی اور خوب صورت بنانے کا خبط ہے چناں چہ جگہ جگہ ناک کی سرجری کے کلینک ہیں‘ اس مناسبت سے تہران کو ’’نوز کیپیٹل‘‘ کہا جاتا ہے۔
خواتین بہت تگڑی ہیں‘ گھر میں کون مہمان آئے گا یہ فیصلہ عورتیں کرتی ہیں‘ یہ بازاروں اور دفتروں میں کام بھی کرتی ہیں‘ لڑکے شادی کر کے بیوی کے ساتھ چلے جاتے ہیں جب کہ لڑکیاں شادی کے بعد بھی والدین کے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں چناں چہ لوگ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں‘ یہ لوگ ہر جمعرات کی شام والدین سے ملاقات کے لیے آتے ہیں اور کھانا ان کے ساتھ کھاتے ہیں‘ ایرانیوں کو سالگرہ منانے کا بہت شوق ہے ‘ یہ اس کی باقاعدہ پارٹیاں کرتے ہیں۔
اولاد والدین کو پیسے نہیں دیتی چناں چہ والدین مرنے تک خودمختار رہتے ہیں‘ یہ بچوں کی طرف نہیں دیکھتے‘ میرے دوست حسین باقری اپنے والدین کو پاکستان پیسے بھجواتے ہیں‘ ان کی بیگم الہام اس بات پر حیران بھی ہوتی ہیں اور اعتراض بھی کرتی ہیں‘ اس کی وجہ ایرانی خاندانی روایات ہیں‘ یہ لوگ اگر ملک سے باہر چلے جائیں تو بھی یہ ایران میں پیسے نہیں بھجواتے‘ صرف رہائشی ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
ملک سستا ہے‘ آپ تھوڑے سے پیسوں سے اچھا گزارہ کر سکتے ہیں‘ خوراک میں خود کفیل ہیں‘ اپنی ضرورت کی خوراک خود پیدا کرتے ہیں اور یہ کوالٹی میں پاکستان سے زیادہ معیاری ہے‘ خوراک میں ملاوٹ کا تصور نہیں‘ اس معاملے میں ریاست کا بہت کنٹرول ہے‘ خوراک اور ادویات غیر معیاری ہو ہی نہیں سکتیں‘ چلو کباب بہت دکھاتے ہیں‘ فارسی میں چاول کو چلو کہتے ہیں‘ چلو کباب میں چاولوں کے ساتھ کباب اور بھنا ہوا ثابت ٹماٹر ہوتا ہے۔
زعفران بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں‘ یہ اسے کھانوں میں بھی ڈالتے ہیں اور چائے میں بھی‘ چائے دودھ کے بغیر قہوے کی شکل میں ہوتی ہے اور یہ سارا دن اسے پیتے رہتے ہیں‘ گوشت کے ساتھ سبزیاں ضرور کھاتے ہیں‘ ایران میں کھیرا سبزی کے بجائے فروٹ ہے لہٰذا یہ آپ کو میز پر سیب اور انگور کے ساتھ ملے گا‘ یہ اسے خیار کہتے ہیں ‘فارسی میں کھیرا بہت ہی برا لفظ ہے چناں چہ آپ اسے وہاں کھیرا کہنے کی غلطی نہ کیجیے گا‘ بڑی مار پڑے گی۔
ایرانی معاشرہ لبرل ہے‘ میوزک عام ہے بلکہ اب ایران میں باقاعدہ کنسرٹ ہوتے ہیں‘ حجاب کی پابندی بھی دم توڑ رہی ہے‘ آپ کو شہروں بالخصوص تہران میں ننگے سر خواتین دکھائی دیتی ہیں تاہم مشہد اور مذہبی مقامات پر اس کا خیال رکھا جاتا ہے‘ نوجوان فوراً شادی نہیں کرتے‘ یہ دو تین سال اکٹھے رہتے ہیں اور پھر شادی کا فیصلہ کرتے ہیں اور یہ رجحان پورے ایران میں عام ہے‘ پورے ملک میں جوڑے عام نظر آتے ہیں اور کوئی ان کا نکاح نامہ چیک نہیں کرتا۔
ڈیٹنگ ایپس بھی عام ہیں اور نوجوان ان سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں‘لوگ تیزی سے انگریزی سیکھ رہے ہیں‘ لوگ مولویوں کو پسند نہیں کرتے‘ یہ مزید آزادی چاہتے ہیں جس کے لیے حکومت راضی نہیں ہے‘ شراب خانے اور ڈسکوز بالکل نہیں ہیں لہٰذا لوگ اس ’’ضرورت‘‘ کے لیے آذر بائیجان‘ ترکی اور دوبئی جاتے ہیں‘ ترکی میں ایرانیوں کی سرمایہ کاری 800 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے‘ آپ کو یہ اعدادوشمار مبالغہ محسوس ہوں گے لیکن ایرانی حکومت کا دعویٰ یہی ہے۔
آپ اگر ترکی جائیں تو آپ کو یقین بھی آ جائے گا‘ آپ کو وہاں ایران سے زیادہ ایرانی ملیں گے‘ عوام اپنے ملک سے بے انتہا محبت کرتے ہیں‘ یہ دوسرے ملکوں کی شہریت لینے کے بعد دوبارہ ایران آ جاتے ہیں‘ لوگ امارت کی خاص حد ٹچ کرنے کے بعد درویش ہو جاتے ہیں‘ یہ چھوٹے گھروں‘ چھوٹی گاڑیوں اور کم سے کم کپڑوں پر چلے جاتے ہیں‘ سیروتفریح کے بہت شوقین ہیں‘ نو روز کے 15 دنوں میں پورا ملک ایک سے دوسرے شہر چلا جاتا ہے چناں چہ ہوٹل اور گیسٹ ہائوسز میں جگہ نہیں ملتی۔
اہل تشیع سفر کے دوران روزے نہیں رکھتے لہٰذا نوجوان رمضان میں سفر شروع کر دیتے ہیں‘ یہ اپنے شہر سے دوسرے شہر چلے جاتے ہیں‘ مجھے ہوٹلوں میں سیکڑوں ایسے جوڑے ملے جو رمضان میں ’’نارمل‘‘ زندگی گزار رہے تھے‘ ہوٹلوں میں ناشتہ‘ لنچ اور ڈنر چلتا رہتا ہے اور رمضان کی زیادہ پابندی نہیں ہوتی‘ یہ کوکا کولا کو نوشابہ کہتے ہیں‘ کوکا کولا نوشابہ سیاہ اور فینٹا نوشابہ زرد کہلاتا ہے۔
کوکا کولا نے ایران میں خوش گوار کے نام سے لسی کے کین بھی متعارف کرا دیے ہیں‘ میں نے کین میں لسی صرف ایران میں دیکھی‘ بجلی‘ پٹرول اور گیس بہت سستی ہے‘ تہران میں ڈیڑھ سو خاندانوں پر مشتمل ایک شیرازی فیملی رہتی ہے‘ یہ لوگ پاکستانی ہیں لیکن نسلوں سے ایران میں رہ رہے ہیں‘ عینک کے کاروبار پر ان کی مکمل اجارہ داری ہے‘ آپ کو ایران میں جہاں بھی سڑکوں پر کوئی شخص عینک بیچتا نظر آئے تو وہ شیرازی ہو گا اور پاکستانی ہو گا
آپ آنکھیں بند کر کے اس کے ساتھ اردو بولیں وہ آپ کو اردو میں جواب دے گا‘ یہ لوگ غیرقانونی ہیں اور ان کے پاس پاکستان اور ایران دونوں ملکوں کے کاغذات نہیں ہیں‘ مرد گھروں میں عورتوں کے ساتھ کام کرتے ہیں‘ ان کا صدر بھی گھر پر پلیٹیں دھوتا ہے‘ گھروں میں صفائی اور کچن کے لیے ملازم نہیں رکھتے‘ ارب پتی بھی کھانا خود بناتے ہیں اور گھر کی صفائی خود کرتے ہیں‘ امام خمینی بھی اپنی بیگم کے مہمانوں کو خود چائے بنا کر دیتے تھے۔
ریستوران بہت اچھے اور پورے ملک میں ہیں اور لوگ وہاں کھانا پسند کرتے ہیں‘ کرنسی بہت کم زور ہے‘ ایک ڈالر میں 6 لاکھ ریال آتے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ خوش حال اور مطمئن ہیں‘ ایرانی حکومت خریداری کو مشینوں پر لے گئی ہے‘ مجھے دس دنوں میں کسی جگہ نوٹ نظر نہیں آیا‘ اسٹریٹ سنگر اور ویٹرز بھی مشین کے ذریعے ٹپ لیتے ہیں‘ ٹیکسیوں میں بھی مشینیں لگی ہیں یا پھر آن لائین پے منٹ ہوتی ہے‘ تہران میں ہزار سے زائد اپارٹمنٹس کی عمارتیں ہیں۔
(جاری ہے)