داعش کی تشکیل میں اسرائیل کا کردار (حصہ دوم)

images-3_1.jpeg

جیل کا سربراہ، موساد کا ایجنٹ

لیکن ابو غریب کے قیدی کسی پر اتنی آسانی سے اعتماد نہیں کرتے، وہ چوبیس سالہ عورت پر۔ اسی لئے موساد نے ابو غریب جیل کے سربراہ کو مطلع کیا کہ وہ اس کے ساتھ بھی دوسرے قیدیوں جیسا سلوک کرے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ جیل کا سربراہ بھی جو موساد کا ایجنٹ ہے، پوری طرح تابعدار ہے: "میں نے ابو غریب جیل کے سربراہ، سیف محمد معراج سے طویل گفتگو کی۔ اس نے کہا مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا کروں! وہ صدام حسین کے زمانے سے لے کر قاہرہ فرار ہونے تک میری برسوں کی سروس کا سب سے اہم مشن تھا۔ مجھے صرف یہ کہا گیا کہ میں بالکل نارمل رہوں اور باقی کام حفصہ پر چھوڑ دوں جو اپنا کام اچھی طرح جانتی ہے۔ میں نے بھی معمول کے مطابق اسے ہوش میں لانے کا حکم دیا اور کہا کہ اسے مرد قیدیوں والے حصے کے سامنے سے زمین پر گھسیٹ کر گزاریں تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے اس کا کیا انجام دیکھ سکیں۔ حفصہ کی آدھی کھلی آنکھوں کو یہ مناظر دیکھنے تھے۔”

"قیدی زمین پر پڑے ہیں اور امریکی فوجی ان کے جسموں پر چل رہے ہیں اور اوپر نیچے کود رہے ہیں۔ اسے ایک ایسے سیل کے سامنے سے گزرنا تھا جہاں قیدی برہنہ حالت میں تھے اور امریکی فوجی ان کے ساتھ یادگار تصاویر بنانے میں مصروف تھے۔ تمام قیدیوں کی طرح اسے بھی گینگ ریپ اور جنسی ہراسانی میں حصہ لینا تھا۔ یہاں تک کہ اسے قیدیوں کو ایک دوسرے کے اوپر لیٹنے پر مجبور کرنے اور انتہائی ذلت آمیز طریقے سے ننگے اور برہنہ جسموں کا ٹیلہ بنانے کا تجربہ بھی کرنا تھا… اسے حتی جیل وارڈن کی طرف سے جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بننا تھا۔ میں نے اس کی گردن سے کتے کی پٹی باندھی اور اسے فرش پر گھسیٹ کر سامنے والے کمرے میں لے گیا۔ میں نے وہاں جا کر اسے جنسی طور پر ہراساں کرنا شروع کر دیا.

 

میٹساوا کا اسپیشل آپریشنز ایجنٹ

یہاں سے موساد کے ایک تجربہ کار اور ماہر ترین ایجنٹ کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ ایک عورت جو بچپن سے ہی میٹساوا سے خصوصی تربیت حاصل کر رہی تھی۔ اسپیشل آپریشن ڈیپارٹمنٹ(Metsava) کا تعلق ان لوگوں کے قتل سے ہے جو صیہونی حکومت کے دشمن سمجھے جاتے ہیں۔ اس شعبے میں مسلح کاروائیوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ خاص لوگوں کا قتل یا اغوا جیسی کارروائیاں۔ اس لڑکی یعنی حیفا کے مشن میں ایسے تمام تر اقدامات شامل ہیں۔ اسے وحشیانہ انداز میں قید کیا جاتا ہے اور حتی اس پر تشدد بھی کیا جاتا ہے تاکہ کسی کو اس پر شک نہ ہو۔ کیونکہ اسے ایسا فتنہ شروع کرنے کی تربیت دی گئی ہے جس کیلئے برسوں منصوبہ بندی انجام پائی ہے۔ حیفا پر کروڑوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے سپرم کی تشکیل پر بھی تفصیلی تحقیق کی گئی ہے۔

حیفا کی پیدائش کیلئے موساد کے ایک ماہر ترین اور قابل ترین ایجنٹ کا نطفہ عراق میں ایک اور ماہر ترین خاتون ایجنٹ کے رحم میں پیوند کیا گیا۔ موساد کے اس خصوصی ایجنٹ کو کوئی نہ کوئی جینیاتی ذہانت ورثے میں ملی ہو گی۔ اسے بچپن سے ہی غاصب صیہونی رژیم کی انٹیلی جنس سروس نے تربیت دی تھی اور اس پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے گئے تھے تاکہ وہ بہترین طریقے سے سونپے جانے والے مشن درست انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔ حیفا فطری طور پر ایک ایسی مخلوق ہے جس میں انسانی جذبات کو ایک عجیب طریقے سے کچل دیا گیا ہے، کیونکہ اس نے شروع سے ہی اپنے والدین کو بالکل نہیں دیکھا اور ابتدا اسے ہی قتل، دھوکہ، فریب اور خصوصی کارروائیوں کی تربیت حاصل کر چکی تھی: "دیکھو حیفا… ہم نے حتی تمہاری موت اور موت کے بعد تک کیلئے بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔”

 

ابوبکر بغدادی کی فکری رہنمائی

اگرچہ حیفا کا مشن صرف داعش کے مرکزی سربراہ ابوبکر بغدادی کی فکری رہنمائی تک محدود نہیں تھا لیکن یہ کتاب کا اہم ترین حصہ تشکیل دیتا ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ حیفا کو عراق بھیجنے کا اصل مقصد ابوبکر بغدادی سے دوستی کرنا، اس کی توجہ حاصل کرنا اور اسکے بظاہر امریکہ مخالف افکار کو شیعہ مخالف بنانا تھا۔ حفصہ (حیفا) نے کہا: "آج مسلمانوں کی حالت ایسی ہے کہ اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو کہتی کہ آج چھپنے والے قرآنوں میں جہاد اور منافقین سے جنگ کی آیات کے علاوہ کوئی اور آیت نہیں ہونی چاہئے۔ اگر کسی دن مجھے یہ اختیار حاصل ہوا تو ضرور غیر جہاد والی آیات کو ہٹا دوں گی تاکہ لوگ صرف جہاد کے بارے میں سوچیں…” ابو محمد نے پوچھا: "حفصہ، تمہارے خیال میں جہاد کس کے ساتھ ہے؟ میں جب افغانستان میں تھا اور امریکیوں اور نیٹو کی فوج کو دیکھتا تھا تو میری حالت غیر ہو جاتی اور ان سے دشمنی محسوس ہوتی اور یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا کہ لوگ ان کی اطاعت کر رہے ہیں۔ اب بھی میں ایسا ہی محسوس کرتا ہوں۔ کیا جنگ اور جہاد سے تمہاری مراد امریکہ کے خلاف جنگ ہے؟”

حفصہ نے کہا: "امریکہ بھی ہو سکتا ہے، لیکن ہمارا ایک دشمن ایسا ہے جو امریکہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے ابوبکر؟” ابوبکر، جس نے اپنے پیچھے دیوار سے ٹیک لگا رکھی تھی اور سیل کے ایک کونے کو گھور رہا تھا، بولا: "ہمارے اہلسنت تو اہلسنت نہیں ہیں، انہیں اصل اسلام کی طرف لوٹنا ہو گا۔” حفصہ نے ایک گہرا سانس لیا اور ایک لمحے کی خاموشی کے بعد اس اکٹھ میں کہا: "میں ابوبکر سے پوری طرح متفق ہوں۔ اس نے جس قدر عقلمندی اور اعلیٰ سطح کی بات کی ہے اس سے مطمئن ہوں، اور اسے قبول کرتی ہوں۔ میرے خیال میں اب سنی صرف اپنے برتھ سرٹیفکیٹ کی حد تک سنی ہیں۔ وہ نام کے لحاظ سے سنی ہیں اور عمل کے اعتبار سے ایسے شیعہ ہیں جن کے کچھ اعمال ہی دوسرے شیعوں سے مختلف ہیں۔ ہمارا پہلا مسئلہ آج کے اسلام سے ہے اور ہمارا دوسرا مسئلہ اہلسنت سے ہے۔ ہماری تمام تر مشکلات کی جڑ بھی اہل تشیع کے سوا کچھ نہیں!”

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے