غزہ بندرگاہ کی تعمیر میں فلسطینی لاشے
غزہ میں کیا حالات ہیں اس کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے اور ہوتا بھی رہے گا۔ لیکن غزہ کی وجہ سے دنیا کس قدر تبدیل ہو جائے گی، اس کی طرف اشارہ امریکی صدر جو بائیڈن کے مشیر رابرٹ نے حماس کے حملے کے جواب میں امریکی اور اسرائیلی ردعمل کو دیکھتے ہوئے کر دیا تھا۔اب جو بائیڈن اور ٹرمپ کی حالت مجبوری یا کیفیت اضطرار میں دیے جانے والے بیانات تبدیلی کے بڑے اشارے بن رہے ہیں۔جو بائیڈن کے مشیر رابرٹ ہر نے آٹھ اکتوبر 2023 کو کہہ دیا تھا ’حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی حملے نے سب کچھ بدل دیا ہے۔اس سے ایک اندازہ آسانی سے کیا گیا کہ اسرائیل نے غزہ میں تباہی کو کس حد تک نقطۂ عروج پر دیکھنے کی کوشش تھی اور اس کے سامنے ہدف کیا تھا۔ امریکی صدر کے ایک دن کے وقفے سے آنے والے بیان نے اس کی کچھ وضاحت کر دی۔
10 اکتوبر کو صدر جو بائیڈن نے کہا ’مجھے نتن یاہو کی تین فون کال آ چکی ہیں۔ میں نے یاہو سے یہی کہا ہے کہ جس حال سے اسرائیل کو گزرنا پڑا ہے اگر امریکہ کو اس حال سے گزرنا پڑتا تو ہمارا جواب تیز، فیصلہ کن اور ہمہ گیر ہوتا۔تقریباً یہی بات صدر جو بائیڈن کے انتخابی میدان میں مدمقابل بننے والے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تازہ تازہ کہی ہے کہ ’نتن یاہو کی جگہ اگر میں ہوتا تو میرا جواب بھی وہی ہوتا جو یاہو نے دیا ہے۔یہ وہ حقیقی سوچ ہے جو دو صدارتی امیداواروں اور ایک امریکی مشیر کے خیالات سے عیاں ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ بظاہر بدلا بدلا لہجے کا تڑکا بھی امریکہ کے دونوں صدارتی امیدوار ان دنوں لگانے کی کوشش میں ہیں۔ وجہ صاف ہے کہ جس تبدیلی کا اشارہ آٹھ اکتوبر کو رابرٹ ہر نے دے دیا تھا، اس کا جادو امریکہ اور یورپ میں بھی سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔وہ صورت حال دونوں امریکی صدارتی امیدواروں کو اپنے ہاں عام امریکیوں کی طرف سے انتخابی مہم کے دوران ملنے والے ’ریسپانس‘ کی صورت بھگتنا پڑ رہی ہے وہ کچھ زیادہ مختلف تو نہیں لیکن کم از کم صدارتی اختیارات کے نشے میں دھت رہنے والی ان دونوں شخصیات کے لیے غیر متوقع ضرور ہو سکتی ہے۔بلاشبہ امریکی عوام میں بالعموم اور خواتین کے ساتھ نوجوانوں میں بالخصوص غزہ میں اسرائیلی جنگ اور اس کے نتیجے میں تباہی اور ہلاکتوں پر ردعمل سیاسی سے زیادہ انسانی ہے۔ اور تو اور مسلم دنیا سے تعلق رکھنے والے عربی و عجمی شناختوں کے امتیاز کے باوجود یہاں کے قدرے آزاد ماحول میں اپنی مرضی سے سوچنے اور بولنے کی جرات کر گزرنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔
ان میں نوجوانوں کی تعداد فطری طور پر زیادہ ہے۔ وجہ صاف ہے کہ اپنی مملکتوں، سلطنتوں اور ریاستوں سے دور ہو کر یہ خود کو کافی حد تک اس قابل پاتے ہیں کہ آزادانہ سوچ سکتے ہیں، بول سکتے ہیں اور لکھ سکتے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں میں بھی یہ لہر روایتی امریکی سوچ کے لیے خطرے کی گھنٹی بن کر بج رہی ہے۔اسی تبدیلی کی عوامی سطح پر مضبوط لہر نے کئی ہفتے پہلے صدر جو بائیڈن کو اسرائیل کے بارے میں لہجے کے بدلاؤ پر مجبور کر دیا اور اسی سبب پیر کے روز ٹرمپ نے بھی ایک ظاہری اعتبار سے ریورس گیئر لگاتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے ’اسرائیل غزہ جنگ کی وجہ سے مسلسل تنہا ہو رہا ہے۔اسرائیل کو مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ آپ دنیا کے بڑے حصے کی حمایت کھو رہے ہیں۔ آپ بہت زیادہ حمایت کھو رہے ہیں، جنگ ختم ہونی چاہیے اور مشن کو پورا کرنا چاہیے۔
لیکن حقیقت کیا ہے اس کا درست ادراک کرنے کے لیے سات اکتوبر سے 27 مارچ تک اسرائیل کے بارے میں امریکی پالیسی اور عمل کے تسلسل پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ تقریباً چھ ماہ کے عرصے میں پھیلی یہ طویل داستان بے مگر اس کا حاصل اور خلاصہ اگر دیکھا جائے اس سارے عرصے میں امریکہ اور اسرائیل عملاً یک جان و دو قالب نظر آتے ہیں۔سات اکتوبر کو غزہ میں جنگ شروع ہوئی۔ 10 اکتوبر تک جو بائیڈن سے نتن یاہو تین بار ٹیلی فون پر رابطے میں آ چکے تھے اور جو بائیڈن یاہو کو تیز، فیصلہ کن اور ہمہ گیر جواب کا راستہ دکھا رہے تھے۔12 اکتوبر کو وزیر خارجہ امریکہ اینٹنی بلنکن اسرائیل پہنچ چکے تھے۔ بلنکن کے ان پانچ ماہ کے دوران اسرائیل کے حق میں سفارت کاری کے لیے مشرق وسطیٰ کے چھ دورے ہو چکے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ کسی ایک دورے کا مثبت اثر فلسطینیوں کے لیے بھی برآمد ہو سکا ہے۔ دوروں کا جو بھی حاصل وصول ہو سکا، وہ اسرائیل سے شروع ہو کر اسرائیل پر ختم ہوتا رہا۔
سلامتی کونسل میں 18 اکتوبر کو امریکہ نے جنگ بندی کے خلاف سلامتی کونسل پہلی قرارداد کو ویٹو کیا۔ یہ صرف سفارتی محاذ کا معاملہ نہ تھا۔ فوجی مدد اور اسلحہ فراہمی کے شعبے میں بھی امریکہ نے اسرائیل کے لیے یہی والہانہ پن، وارفتگی اور جان نثاری دکھائی۔18 اکتوبر 2023 کو سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کے لیے پہلی قرارداد کو امریکہ نے اسرائیل کے حق میں ویٹو کیا اور اسی روز اپنا بحری بیڑہ اسرائیل کے دروازے پر بحیرۂ روم میں بھیج دیا۔ اسرائیل کی غزہ میں اس جنگ میں امریکہ کی بحری قوت کا دخل گویا شروع سے ہی کلیدی حیثیت کا حامل رہا ہے۔
امریکی بحریہ کی اسرائیل کے لیے سات اکتوبر 2023 سے خدمات اور حکمت عملی کو خیال میں رکھا جائے تو سات مارچ 2024 کو صدر جو بائیڈن کے اہم ترین سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اسی بحیرۂ روم میں غزہ کے لیے بندرگاہ کی تعمیر کا اعلان ظاہری بیان سے ہٹ کر کچھ اور اشارے دیتا ہے۔امریکی بحریہ اور غزہ کی جنگ میں اسرائیل کے لیے بہت کچھ کر گزرنے کے امریکی جذبے کو سمجھنے کے لیے بیروت میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں پر ٹینک چڑھانے کی اسرائیلی جنگی حکمت عملی کے بانی جنرل ارئیل شیرون کے غزہ کے بارے میں خیالات کو سن لیں۔ ’یہ میرا خواب ہے کہ میں کسی دن نیند سے بیدار ہوں تو مجھے یہ خبر ملے کہ غزہ بحیرہ روم میں ڈوب گیا ہے۔‘
اسرائیلیوں کو قوی امید ہے کہ ارئیل شیرون کا یہ خواب اب امریکہ کے تعاون سے پورا ہو جائے گا۔ اسرائیل نے پہلے اپنے مہربان اتحادیوں کی ہر ممکن مدد سے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں بدلا ہے اور اب صدر جو بائیڈن نے غزہ کے ساتھ جس عارضی امریکی بندرگاہ کے بنانے کا اعلان کیا ہے اور امکانی طور پر ماہ مئی کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں مکمل ہو جائے گی۔ یہ اسی ملبے کو سمندر میں پھینک کر اس پر تعمیر کی جائے گی۔یہ ملبہ صرف غزہ کے مکانوں، گھروں، مسجدوں، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا نہیں ہو گا بلکہ اس میں ہزاروں فلسطینی بچوں کی لاشوں کے ٹکڑے، چیتھڑے، ہڈیاں بھی شامل ہوں گی۔ ہزاروں فلسطینی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی لاشوں کے مقدس پارچے بھی ہوں گے۔ اس سب کچھ کو ٹھکانے لگانے کا غیر علانیہ ہدف بندرگاہ کی بنیادوں میں ہی پورا ہو جائے گا۔
ہاں اس کے لیے شواہد اس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور سابق امریکی مشیر برائے مشرق وسطیٰ جیرڈ کشنر کے گذشتہ ماہ ہارورڈ یونیورسٹی میں ہونے والا انٹرویو خود گواہی دے رہا ہے۔جیرڈ کشنر کے بقول ’یہ بدقسمتی ہے کہ کوئی بھی مہاجرین کو لینے کو تیار نہیں۔‘ مزید کہا ‘کیا وجہ ہے کہ جب غزہ کو سمندر کے ’واٹر فرنٹ‘ بنا کر قیمتی جگہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تو اسرائیل کو صفائی کیوں نہیں کرنی چاہیے، یہ صفائی فلسطینیوں کے صفائی والی ہے جبکہ ملبہ اٹھا کر لاشوں اور لاشوں کے پارچوں سمندر میں بندرگاہ کی تعمیر کے لیے پھینکا تو ایک اور طرح کی صفائی بلکہ ہاتھ کی صفائی بھی ہو سکتی ہے۔ جو صرف امریکہ کو ہی زیبا ہو سکتی ہے۔کشنر چونکہ صدارتی امیدوار نہیں ہیں اس لیے ایک کامل مغرور امریکی کی طرح جو دل میں رکھتے ہیں زبان پر لانے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس سوال پر غزہ سے جبراً بے گھر کیے گئے فلسطینیوں کو واپس اپنے گھروں میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی؟
یہ وہی غزہ ہے جس کے ساتھ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد کا تعلق ہے۔ جہاں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد ہاشم بن عبد مناف کی قبر اطہر ہے۔مسٹر کشنر نے کہا ’شاید۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ابھی غزہ میں بہت کچھ باقی ہے۔ اس کی کوئی تاریخ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ لوگ قبائل تھے جو مختلف جگہوں پر گئے اور پھر غزہ بن گیا۔ ایک علاقائی وجود کے طور پر غزہ کی پٹی نسبتاً حالیہ تعمیر ہے۔مگر کشنر ہی نہیں بہت سے اسلامی شناخت رکھنے کے باوجود کشنر کی سوچ کو ماننے یا آگے بڑھانے والے بھی ان حقائق کو بھول جاتے ہیں جن کی بنیاد پر غزہ کی صدیوں پرانی تاریخ کھڑی ہے۔ یہ وہی غزہ ہے جس کے ساتھ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد کا تعلق ہے۔ جہاں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد ہاشم بن عبد مناف کی قبر اطہر ہے۔
وہی ہاشم بن عبد مناف جن کی نسبت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول ہاشمی کہا جاتا ہے۔ جن کی نسبت سے یہ فلسطینی خطہ ہاشمیوں کا مسکن کہلاتا رہا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد کی قبر اطہر اسی غزہ میں ہے کہ ان کا انتقال غزہ میں ہوا اور یہی ان کا مدفن ٹھہرا۔ان کے نام سے منسوب مسجد السید ہاشم آج بھی الدرج محلہ میں موجود ہے۔ کم از کم یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ سے پہلے موجود تھی۔ نہ جانے اب اسرائیلی جنگ اور امریکہ کے بندر گاہی منصوبے کے بعد اس قبر اطہر اور مسجد کا مستقبل کیا ہو، کہنا مشکل ہے۔
آج بھوک اور قحط سے مرنے کے لیے چھوڑ دیے گئے غزہ کے فلسطینیوں کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ایک دور وہ تھا جب اسی غزہ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد ہاشم بن عبد مناف آٹا مکہ لے جاتے تھے کہ وہاں قط سالی کی وجہ سے بھوک کے مارے لوگوں کو کھانا کھلا سکیں۔ نہ صرف یہ کہ اونٹوں پر لاد کر آٹا لے جاتے اور اہل مکہ کی دعوتیں کرتے بلکہ اپنے اونٹ ذبح کرتے اور شوربہ بنا کر آٹے کی پکی روٹیوں سے ’ثرید‘ بناتے اور انہیں کھلاتے۔ہاں! آج غزہ میں انسانی ساختہ قحط کی زد میں فلسطینیوں کے ابھی بھوک اور قحط سے مرنے کو برداشت، قبول یا کہیں کہیں پسند کیا جا رہا ہے۔ جبکہ امریکی بندرگاہ کی تعمیر سے جڑی امداد کو بہت سے فلسطینی سمجھتے ہیں کہ
امداد کے بہانے آئے زمین چرانے