کچے کے ڈاکوؤں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں، سندھ پولیس ناکام کیوں؟
دریائے سندھ کے کنارے آباد وادی مہران میں ان دنوں ایک بار پھر بدامنی کے بادل گہرے ہو رہے ہیں کیونکہ کچے کے ڈاکوؤں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے باعث آئے روز بے گناہ شہری جان سے جا رہے ہیں۔ڈاکوؤں کے اثرو رسوخ کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے کچے کے علاقے میں اب علم کی شمع روشن کرنے والوں کے خلاف بھی محاذ کھڑا کر رکھا ہے۔ایک ہفتے کے دوران دو مختلف واقعات میں کچے کے ان بے چہرہ ڈاکوؤں نے تین اساتذہ کو نشانہ بنایا ہے جس سے ایک استاد جان بحق جبکہ دو شیدید زخمی ہوئے ہیں
مقامی سطح پر ہونے والی ان وارداتوں میں اضافے کے ساتھ ہی کچے کے ڈاکو چھوٹے بڑے دیہات، قصبوں اور شاہراؤں پر وارداتیں کرنے کے بعد باآسانی فرار ہو جاتے ہیں۔رواں ہفتے کا پہلا واقعہ سندھ کے قصبے کندھ کوٹ کے رہائشی پرائمری سکول کے استاد اللہ رکھیو نندوانی کے ساتھ پیش آیا۔ وہ کچے کے پسماندہ علاقے میں علم کی شمع روشن رکھنے کی جدو جہد کر رہے تھے۔اللہ رکھیو کو طویل عرصے سے تعلیمی سرگرمیاں بند نہ کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں جس کا ذکر انہوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں بھی کیا تھا۔سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی اس ویڈیو میں پرائمری سکول ٹیچر اللہ رکھیو اپنے بیٹے کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے اپنے ہاتھ میں ایک دو نالی بندوق تھام رکھی تھی۔
اللہ رکھیو نے ویڈیو میں بتایا تھا کہ ’انہیں تدریسی سلسلہ روکنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے اس بارے میں محکمہ تعلیم سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو مطلع بھی کیا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا تو انہوں نے اپنی حفاظت خود کرنے اور بچوں کی تعلیم کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اللہ رکھیو نے اس ویڈیو میں مزید کہا تھا کہ ’علاقے میں سرگرم ڈاکو یہ چاہتے ہیں کہ بچوں کو تعلیم سے دور رکھا جائے۔ ان حالات میں یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے چند روز بعد ہی اللہ رکھیو نندوانی پر سندھ کے ضلع کشمور کے علاقے کندھ کوٹ کے قریب گوٹھ نصراللہ بجرانی میں نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس میں وہ شدید زخمی ہو گئے اور علم کی شمع جلائے رکھنے کی جستجو میں جان سے چلے گئے۔
اس واقعے کے بعد ضلع کشمور میں اساتذہ کی جانب سے کندھ کوٹ پریس کلب کے باہر احتجاج بھی کیا گیا۔ مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’اللہ رکھیو نندوانی کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے اقدامات تیز کیے جائیں۔مظاہرین نے خطاب میں کہا کہ ’ایک ہفتہ قبل اپنی حفاظت کے لیے بائیک پر استاد جب ایک ہاتھ میں بندوق تھامے اپنے بیٹے کے ساتھ جا رہے تھے جس کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تو ان کا نام ڈاکوؤں کی ہٹ لسٹ پر موجود تھا۔حالیہ کچھ عرصے میں کندھ کوٹ میں امن وامان کی صورتحال خراب ہوئی ہے اور لوگ علاقے سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ ’کچے کے ڈاکو اب شہروں میں آ کر وارداتیں کرنے لگے ہیں۔
ٹیچرز ایسوسی ایشن کے رہنما صدرالدین مرہٹہ نے کہا کہ ’معاشرے کو علم کی روشنی سے منور کرنے والے اساتذہ بھی اب محفوظ نہیں رہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ضلع بھر سے سردست 54 افراد اغوا ہیں۔ آپ کی حفاظت پر مامور محافظ ہی جب ایسی وارداتوں میں ملوث ہوں تو علاقے سے نقل مکانی کرنا ہی بہتر فیصلہ ہے۔سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے استاد کے اس بہیمانہ قتل پر ذمہ داروں کو ایک بار پھر کیفر کردار تک پہنچانے کا اعادہ کیا گیا ہے لیکن عملی طور پر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اس واقعے کے چھ روز گزر جانے کے بعد بھی ڈاکو ایک بار پھر اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکلے اور انہوں نے دو مزید اساتذہ کو نشانہ بنایا۔کندھ کوٹ پولیس کے مطابق اوگاہی لاڑو کے مقام پر ڈاکوؤں کی جانب سے ایک سکول ٹیچر کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اغوا کی یہ کوشش اس وقت کی گئی جب وہ اپنی تدریسی ذمہ داریاں ادا کرنے سکول جا رہے تھے۔
کندھ کوٹ پولیس نے کہا ہے کہ ڈاکوؤں نے مزاحمت پر مقامی ہائی سکول حامد بھلکانی کے ٹیچر عبدالرحیم باجکانی اور ان کے والد ریٹائرڈ ٹیچر علی گوہر باجکانی کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان پر فائرنگ کی جس سے دونوں شدید زخمی ہو گئے۔ انہیں مقامی لوگوں نے بروقت سول سپتال کندھ کوٹ منتقل کیا جہاں انہیں فوری طبی امداد فراہم کی گئی۔ ہسپتال کے عملے کے مطابق دونوں اساتذہ کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔
وہ علاقے جہاں ڈاکو آزادانہ کارروائیاں کر رہے ہیں
سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں کئی دہائیوں سے ڈاکوؤں کے مختلف گروہ سرگرم ہیں۔سینیئر صحافی طارق ابوالحسن ان علاقوں میں جا کر کئی بار رپورٹنگ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں ڈاکوؤں کے متعدد گروہ سرگرم ہیں۔یہ علاقے عام طور پر کچے کے علاقے کے طور پر جانے جاتے ہیں جہاں سرگرم جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے علاوہ کالعدم تنظیمیں بھی کر رہی ہیں۔پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خود یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ’ان علاقوں میں موجود شرپسند عناصر کے تانے بانے بہت آگے تک جڑے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف کئی بار کارروائی کی گئی مگر یہ ہمیشہ بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔‘
کچے کے علاقے کا حدود اربع کیا ہے؟
کچے کا علاقہ پاکستان کے تین بڑے صوبوں کا سرحدی علاقہ ہے جو صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور، سندھ کے ضلع کشمور اور بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی پر مشتمل ہے۔ یہ دریائے سندھ میں قدرتی طور پر بنے دو چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے جن کی مجموعی لمبائی تقریباً 40 سے 60 کلومیٹر اور چوڑائی تقریباً 10 سے 15 کلومیٹر ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کچے کے علاقے میں تقریباً آٹھ بڑے جبکہ 11 چھوٹے گینگ اور کچھ کالعدم بلوچ تنظیموں کے لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کی پشت پناہی مبینہ طور پر سندھ اور راجن پور کے علاوہ رحیم یار خان کی پولیس اور وڈیرے بھی کرتے آئے ہیں۔
کچے کے علاقے جرائم پیشہ افراد کے محفوظ ٹھکانے کیسے بنے؟
جامعہ کراچی شعبہ کرمنالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر نائمہ شہریار نے بتایا کہ ’کچے کے علاقے شروع سے ہی جرائم پیشہ افراد کے ٹھکانے نہیں تھے لیکن چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کو جب بااثر شخصیات کی حمایت حاصل ہونے لگی تو انہوں نے جرائم پیشہ گروہوں کی صورت اختیار کر لی، اور چند ہی برسوں میں یہ طاقت ور جرائم پیشہ گروہوں کے طور پر ابھرے۔ یوں وہ نہ صرف ان علاقوں کے لیے بلکہ ان علاقوں سے گزرنے والوں کے لیے بھی مسائل پیدا کرنے لگے۔ ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف کئی بار آپریشنز بھی ہوئے مگر یہ اب بھی کسی نہ کسی طور پر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں رائج سرداری نظام
سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقے اوباڑو میں سرگرم عمل سماجی کارکن روبینہ شر کے مطابق پاکستان کے تین بڑے صوبوں کے سنگم پر واقع اس علاقے کے دامن میں تینوں ہی صوبوں کی روایات نظر آتی ہے۔ ان علاقوں میں قبائلی نظام رائج ہے، اور ملک کے دیگر علاقوں کے سرداروں کی طرح یہ یہاں کے بیشتر علاقوں میں بھی کسی قسم کی روک ٹوک کے بغیر سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ کچھ عرصے سے راجن پور، رحیم یار خان اور گردونواح میں موجود قبائل کے درمیان باہمی اتفاق سے ایک فارمولہ طے پا چکا ہے۔ اس علاقے میں موجود سرداری نظام راجن پور کے مزاری قبیلے کی سربراہی میں منظم ہے۔ لیکن اس کے باوجود کئی علاقوں میں آوازیں بلند ہونے لگی ہیں اور لوگ مزاری قبیلے کے خلاف بھی فیصلے کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ مزاری قبیلے کے ذیلی قبائل میں سکھانی، بالاچانی، گورچانی، لاٹھانی اور سرگانی قبیلے شامل ہیں اور یوں یہ اس علاقے کا طاقت ور ترین قبیلہ بن چکا ہے۔
کیا کبھی کچے کے علاقے میں پولیس نے کارروائی کی ہے؟
سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے متصل کچے کے ان علاقوں میں کئی بار پولیس، رینجرز سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشن کر چکے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان علاقوں میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے ایک درجن سے زیادہ چھوٹے بڑے آپریشنز میں کامیابی کا دعویٰ کیا جا چکا ہے لیکن یہ عناصر کبھی ختم نہیں کیے جا سکے جس کی وجہ طاقت ور شخصیات کی ان کی پشت پناہی کرنا ہے۔کچھ عرصہ قبل سکیورٹی اداروں کی جانب سے پنجاب کے کچے کے علاقے میں بدنام زمانہ چھوٹو گینگ کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تھا۔سکیورٹی اداروں کو کئی روز تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس آپریشن کے بعد کچے کے علاقوں میں چھوٹے بڑے کریک ڈاؤن بھی کیے گئے اور حالات کو کنڑول کر لیا گیا تھا۔
تاہم کچھ عرصے سے ایک بار پر ان علاقوں سے ڈاکوؤں کی کارروائیوں کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں جس کے بعد نومنتخب حکومت ایک بار پھر کچے کے علاقے میں گرینڈ آپریشن کرنے کی حکمت عملی مرتب کر رہی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ڈاکوؤں نے طریقے بھی تبدیل کیےصوبہ خیبر پختونخوا سمیت دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے سندھ میں اغوا ہونے کے واقعات تواتر سے سامنے آ رہے ہیں۔تاوان کی رقم کی ادائیگی کے بعد رہائی پانے والے حبیب الرحمنٰ (فرضی نام) نے بصیر میڈیا کو بتایا کہ ’انہوں نے 21 دن اغوا کاروں کے پاس گزارے ہیں۔ یہ وقت ان کی زندگی کا بدترین وقت تھا۔ انہیں دو دو روز تک کھانے کو کچھ نہیں دیا گیا، ان پر بدترین تشدد کیا گیا جس کی ویڈیو بنا کر ان کے گھر والوں کو بھیجی گئی۔انہوں نے بتایا کہ ’ان کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اغوا کیا گیا جس کے چار روز بعد ان کے گھر والوں کو ان کی ویڈیو بھیجی گئی اور ان سے دو کروڑ روپے تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا۔10 دنوں تک پیسے نہ ملنے پر زدوکوب کیا گیا اور پھر بلآخر انہیں میری حالت پر رحم آیا تو معاملہ کچھ کم پیسوں میں طے ہونے کے بعد میری جان بچ سکی۔
کچے کے ڈاکوؤں میں تعلیم یافتہ لوگ
حبیب الرحمنٰ کا کہنا تھا کہ ’اغوا کاروں میں موجود کچھ لوگوں کے لہجے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ گفتگو میں انگریزی کے الفاظ بھی بول رہے تھے اور ان کا لہجہ بھی دوسروں سے مختلف تھا۔‘
ڈاکوؤں کے پاس جدید ہتھیار کیسے پہنچے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کوئی دینے کو تیار نہیں کیونکہ ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین ہتھیار موجود ہیں جن میں راکٹ لانچر بھی شامل ہیں۔
روایتی طریقوں سے ہٹ کر وارداتیں
سندھ پولیس کے مطابق ماضی میں جو واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں، ان میں اسلحے کے زور پر لوگوں کو اغوا کیا جاتا تھا۔ اب کچھ عرصے سے کاروباری افراد کو ٹریپ کر کے اغوا کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پولیس کی جانب سے عوام کی آگاہی کے لیے مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔سندھ اور پنجاب آنے جانے والی گاڑیوں میں سوار شہریوں سے پولیس اہلکار مخاطب ہو کر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر کوئی شہری کاروباری لین دین، گاڑی کی خرید و فروخت یا پھر کسی خاتون کے بلانے پر کچے کے علاقے میں جانے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ ایسا کرنے سے خود کو روکے، کیونکہ جرائم پیشہ افراد مختلف طریقوں سے لوگوں کو یرغمال بنانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی فرد اگر ایسے کسی عمل کا حصہ بننے جا رہا ہے تو وہ یہ کام نہ کرے۔
سندھ پولیس کا موقف
رواں برس 13 مارچ کو انسپکٹر جنرل سندھ پولیس نے صوبے کی نومنتخب کابینہ کو صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر بریفنگ دی۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ اگست 2023 سے مارچ 2024 تک اغوا برائے تاوان کے 78 کیسز سامنے آئے ہیں، ان میں سے 49 افراد بازیاب ہو چکے ہیں اور 29 فی الحال بازیاب نہیں کروائے جا سکے۔
بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ اغوا کی 29 وارداتوں میں سے چھ کا تعلق گھوٹکی، نو کا شکارپور اور 14 کا کشمور سے ہے۔صوبہ سندھ کے وزیراعلٰی سید مراد علی شاہ نے صوبے میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں استاد کے قتل کے واقعے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔سید مراد علی شاہ نے کچے کے علاقے میں بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صوبائی وزیر داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ قبائلی جھگڑوں کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے وزرا، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ مل کر کام کریں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل نگراں صوبائی حکومت کے دور میں بھی سندھ کے کچے کے علاقے میں گرینڈ آپریشن کیے جانے کی بازگشت سنائی دی تھی۔
اجلاس میں امن و امان سے متعلق صوبے بھر کی صورتحال پر سندھ کابینہ کو انسپکٹر جنرل پولیس نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ سال 2023 میں 218 شہری اغوا ہوئے، جن میں سے 207 مغوی بازیاب کروا لیے گئے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق کچے کی مجموعی آبادی چار لاکھ افراد پر مشتمل ہے، جو 238 دیہات میں آباد ہیں، علاقے میں آٹھ پولیس سٹیشن اور 20 چیک پوسٹیں قائم ہیں۔اجلاس میں کچے کے علاقے میں پولیس اور رینجرز کا فوج کے ساتھ مل کر آپریشن کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا اور نگراں وزیراعلٰی سندھ نے کچے میں انٹرنیٹ کی سہولت ختم کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔نگراں وزیراعلٰی سندھ نے گھوٹکی اور کندھ کوٹ پل پر فوری کام شروع کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔
متذکرہ بالا فیصلوں کے بعد کچھ روز تک انتظامیہ کچے کے علاقے میں حرکت میں نظر آئی لیکن کچھ ہی عرصے میں عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہو گئیں اور کچے میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن تعطل کا شکار ہو گیا۔سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں صورتحال اب اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ پولیس کی جانب سے عوام کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے بس اڈوں اور ہائی ویز کی چیک پوسٹوں پر لاؤڈ سپیکرز کے ذریعے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔