داعش ختم نہیں ہوئی، ماسکو حملہ مغرب کے لیے انتباہ

350381-221229461.jpg

اس بات کے مضبوط اشارے موجود تھے کہ شدت پسند ایک حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جو ان کے مہلک عزائم کے لحاظ سے ایک ’شاندار‘ منصوبہ تھا اور یہ سنگین ناگزیر واقعہ بالآخر 140 سے زیادہ لوگوں کے قتل عام کے ساتھ جمعے کی شب ماسکو میں پیش آیا۔نیٹو اور روس کے درمیان تعلقات سرد جنگ کے دوران نچلی ترین سطح پر پہنچنے کے باوجود کریملن اور متعدد مغربی ممالک کے درمیان دہشت گردی کے معاملات پر رابطوں کے چینلز فعال رہے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ اور پھر برطانیہ کو اس سال کے آغاز میں اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ داعش مستقبل قریب میں روس میں حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور امریکہ نے اس حوالے سے ماسکو کو خبردار بھی کیا تھا۔روسی انٹیلی جنس کو بھی ایسی ہی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔ کریملن اور ولادی میر پوتن پر افغانستان، چیچنیا اور شام میں ’مسلمانوں کا خون‘ بہانے کاا الزام تیزی سے ابھر رہا تھا بلکہ افریقہ کی وسطی پٹی میں پراکسی ملیشیا کے ذریعے قتل و غارت گری کے لیے بھی ماسکو پر انگلیاں اٹھائی جا رہی تھیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ روس میں حالیہ کچھ خونریز دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے داعش تھی جن میں 2017 میں سینٹ پیٹرزبرگ میٹرو سسٹم پر ہونے والا بم حملہ بھی شامل تھا جس میں 15 افراد جان سے گئے اور 45 دیگر زخمی ہوئے تھے۔رواں سال تین مارچ کو روس کی سکیورٹی سروس ایف ایس بی نے کہا کہ انگوش کارابلک علاقے میں چھ دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ چار دن بعد اس نے اعلان کیا کہ ماسکو کے قریب کالوگا علاقے میں ایک یہودی عبادت گاہ پر حملے کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔

ایف ایس بی نے ایک بیان میں کہا: ’یہ ثابت ہوا ہے کہ ایک بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کے شدت پسند آتشیں اسلحے کا استعمال کرتے ہوئے مسیحی عبادت گزاروں پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔اسی روز واشنگٹن نے امریکیوں سے ماسکو چھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سفارت خانہ ان رپورٹس کا جائزہ لے رہا ہے کہ شدت پسندوں کا ماسکو میں کنسرٹس سمیت بڑے اجتماعات کو نشانہ بنانے کا منصوبہ ہے اور امریکی شہریوں کو اگلے 48 گھنٹوں میں بڑے اجتماعات سے گریز کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔مغرب کے لیے یہ غیر معمولی بات نہیں ہے کہ وہ ممکنہ دہشت گردانہ حملوں کی معلومات حریف ریاستوں تک پہنچائیں۔واشنگٹن کی جانب سے جنوری میں داعش کے کرمان شہر میں خودکش بم حملے سے پہلے ایران کو ایک انتباہ بھیجا گیا تھا جس میں ایک سو سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔ان دونوں حملوں کی کڑیاں افغانستان سے ملتی ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ماسکو میں ہونے والا حملہ داعش خراسان کی طرف سے انجام دیا گیا ہے جسے 2015 میں ان شدت پسند گروپوں نے تشکیل دیا تھا جو وسطی ایشیا میں روسیوں کے ساتھ برسرپیکار تھے اور صدر بائیڈن کی جانب 2021 میں افغانستان سے مغربی افواج کے انخلا کے فیصلے کے بعد یہ گروپ اب طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں مورچہ بند ہیں اور بڑھ رہے ہیں۔داعش خراسان کا خوفناک ارادہ اس وقت بھی ظاہر ہوا تھا جب افراتفری میں ہونے والے انخلا کے وقت کابل ہوائی اڈے کے قریب ایک تباہ کن بم دھماکے میں 183 افراد مارے گئے تھے جن میں 170 افغان اور 13 امریکی فوجی شامل تھے۔

جو کچھ ہوا وہ مغرب کے لیے وارننگ ہونا چاہیے۔ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ روس کے اندر حملہ کرنے کے بعد داعش خراسان یورپ اور امریکہ میں اسی طرح کی کارروائیوں کی کوشش نہیں کرے گا۔ آخر کار یہ وہی بین الاقوامی لشکر ہے جو مغرب نے افغانستان میں روسیوں سے لڑنے کے لیے بنایا تھا جس نے بعد میں نائن الیون کے حملے کیے تھے۔ہم ماسکو میں ہونے والے واقعات کے بارے میں الزامات اور جوابی الزامات سننے کی بھی توقع کر سکتے ہیں۔ ہفتے کے روز صدر پوتن نے الزام لگایا کہ حملے میں یوکرین ملوث ہے اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ حملہ آور یوکرین فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

ماسکو نے اس کا موازنہ نازی بربریت کے ساتھ کیا جیسا کہ روسی حکام جنگ شروع ہونے کے بعد سے یوکرین کی کارروائی کو بیان کرنے کے لیے اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ادھر کیئف میں صدر زیلنسکی کی حکومت نے فوری طور پر اس دعوے کی تردید کی اور قصوروار ہونے کی تردید کی۔ یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس کے اہلکار آندری یوسوف نے نشاندہی کی کہ قاتلوں کو یوکرین کی سرحد تک پہنچنے کے لیے ایسے علاقے سے گزرنا پڑے گا جہاں روس کی بھاری فوج اور سکیورٹی فورسز موجود ہیں۔جنگ شروع ہونے کے بعد سے یوکرین کی انٹیلی جنس سروسز نے روس کے اندر متعدد ٹارگٹڈ حملے کیے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ متعدد قتل کے ذمہ دار بھی ہوں۔ اگر ان پر شہریوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کا الزام ثابت ہو جائے تو انہیں بین الاقوامی مذمت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کریملن نے ابھی تک یوکرین کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا ہے۔

دوسری طرف یوکرین اور غزہ میں دو بڑی جنگوں کے دوران داعش کے پاس اب حملہ کرنے اور بین الاقوامی تعلقات میں بداعتمادی اور الزام تراشیوں سے فائدہ اٹھانے کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔جیسا کہ برطانوی سکیورٹی تجزیہ کار رابرٹ ایمرسن نے نشاندہی کی کہ ’داعش جیسے گروہ ختم نہیں ہوتے۔ وہ تھوڑی دیر چھپ سکتے ہیں لیکن پھر حالات سازگار ہونے پر دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ یہ دہشت گردی اور شورش کی حقیقت ہے۔‘

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے