کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ "فوج نے حکومت اور تحریک انصاف کو کیا پیغام دیا ؟

eed26570-dbba-11ee-8500-63816083acc3.jpg

آٹھ فروری کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنے آزاد امیدواران کے ذریعے دیگر سیاسی جماعتوں سے زیادہ نشستیں حاصل کیں جس کے بعد اس کے روپوش رہنما منظر عام پر آنے لگے۔ ان میں سے کئی لوگ نو مئی کو عسکری تنصیبات پر حملوں کے بعد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب تھے۔مگر پھر ان رہنماؤں نے عدالتوں سے اپنے خلاف قائم مقدمات میں ضمانتیں حاصل کیں اور اپنی جماعت کا مؤقف پیش کرنے کے لیے میڈیا کے کیمروں کے سامنے بھی آئے۔

ان رہنماؤں میں سرِ فہرست تو پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب ہیں جو کافی عرصے سے منظر پر نہیں تھے مگر آٹھ فروری کے بعد وہ باقاعدہ ٹی وی چینلز پر نمودار ہونا شروع ہوئے اور اپنی جماعت کے دفاتر جا کر وہاں اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔وہ شہباز شریف کے خلاف تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے وزیراعظم کے امیدوار بھی بنے اور انھوں نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر حکومت پر خوب تنقید بھی کی۔خیبر پختونخوا سے علی امین گنڈا پور روپوشی ختم کر کے اور عدلیہ سے ریلیف حاصل کرنے کے بعد وزارت اعلیٰ کی نشست پر بھی پہنچ چکے ہیں۔ ان کے متعدد ساتھی بھی اب عام انتخابات کے بعد منظر عام پر آ گئے ہیں۔

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فیصل جاوید بھی تحریک انصاف کے ان رہنماؤں میں شامل تھے جن پر نو مئی سے متعلق واقعات پر مقدمات قائم تھے۔مگر جب انھوں نے سرینڈر کیا تو انھیں بھی عدالتوں سے ریلیف ملا۔ عمر ایوب سمیت تحریک انصاف کے ان رہنماؤں نے پارلیمنٹ میں عمران خان کے خلاف مقدمات ختم کرنے اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم اب پاکستانی فوج کی طرف سے یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں کسی بھی طرح سے ملوث افراد سے کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور یقینی طور پر قانون اور آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔فوج نے اپنے اوپر عائد کردہ دھاندلی کے الزامات کی بھی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس نے مینڈیٹ کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد کے لیے عوام کو محفوظ ماحول فراہم کیا۔ ’اس سے زیادہ افواج پاکستان کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ فوج کے اس بیان کی روشنی میں تحریک انصاف اور حکومت کے لیے کیا مشکلات اور چیلنجز سامنے آئے ہیں۔

کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے میں کیا ہے؟

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے منگل کو آرمی چیف عاصم منیر کی زیر صدارت 263ویں کور کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کی مسلح افواج نے دیے گئےمینڈیٹ کے مطابق عام انتخابات 2024 کے انعقاد کے لیے عوام کو محفوظ ماحول فراہم کیا اور اس سے زیادہ افواج پاکستان کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘

اعلامیے کے مطابق ’عام انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مینڈیٹ کے مطابق تمام تر مشکلات کے باوجود محفوظ ماحول مُہیا کرنے پر فورم (کور کمانڈرز) نے سول انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی فورسز کی کوششوں کو سراہا۔اعلامیے کے مطابق فورم نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ’کچھ مخصوص مگر محدود سیاسی عناصر، سوشل میڈیا اور میڈیا کے کچھ سگمنٹس کی طرف سے مداخلت کے غیر مصدقہ الزامات کے ساتھ پاکستان کی مسلح افواج کو بدنام کر رہے ہیں، جو انتہائی قابل مذمت ہے۔

اعلامیے کے مطابق بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ’گڈ گورننس، معاشی بحالی، سیاسی استحکام اور عوامی فلاح و بہبود جیسے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے، ایسے مفاد پرست عناصر کی پوری توجہ اپنی ناکامیوں کوپس پشت ڈال کر سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے پر مرکوز ہے۔اعلامیے کے مطابق فورم نے اس بات پر زور دیا کہ ’غیر آئینی اور بے بنیاد سیاسی بیان بازی اور جذباتی اشتعال انگیزی کا سہارا لینے کے بجائے ثبوت کے ساتھ مناسب قانونی عمل کی پیروی کی جائے۔‘اعلامیے کے مطابق فورم نے مرکز اور صوبوں میں اقتدار کی جمہوری انداز میں منتقلی پر اطمینان کا اظہار کیا۔

کور کمانڈرز نے امید ظاہر کی کہ ’انتخابات کے بعد کا ماحول پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام لائے گا، جس کے نتیجے میں امن اور خوشحالی آئے گی اور جمہوری استحکام ہی ملک کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم پاکستان کے عزم کے مطابق فورم نے اعادہ کیا کہ ’9 مئی کے منصوبہ سازوں، اشتعال دلانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو یقینی طور پر قانون اور آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔اس سلسلے میں مسخ شدہ، ابہام اور غلط معلومات پھیلانے کی بدنیتی پر مبنی کوششیں بالکل بے سود ہیں، جو صرف مذموم سیاسی مفادات کے حصول کے لیے منظم مہم کا حصہ ہیں تاکہ نو مئی کی گھناؤنی سرگرمیوں پر پردہ ڈالا جا سکے۔‘

شرکا کانفرنس نے بعض مذموم عناصر کی جانب سے معاشرے میں مایوسی اور تقسیم ڈالنے کے لیے پھیلائی جانے والی منظم جھوٹی اور جعلی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ فورم نے پاکستان کے قابل فخرعوام پر زور دیا کہ ’وہ مثبت اور متحد رہیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں دل و جان سے حصہ لیں۔شرکا نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ’پاک فوج پائیدار استحکام، خوشحالی اور سلامتی کے سفر میں قوم کا دفاع اور خدمت ہر ممکن طریقے سے جاری رکھے گی۔فورم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ’عسکری قیادت چیلنجز اور خطرات سے پوری طرح باخبر ہے اور پاکستان کے عوام کی حمایت کے ساتھ اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے پرعزم ہے۔

تحریک انصاف کے لیے کور کمانڈرز اعلامیے کا مطلب کیا ہے؟

تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں پر نو مئی کی منصوبہ بندی اور اس عمل میں مشاورت دینے جیسے الزامات پر مبنی مقدمات درج ہیں۔ایسے افراد یا کارکن جو ان واقعات کا حصہ تھے یا وہ ایسے مقامات پر موجود تھے، جہاں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ ہوا تو انھیں گرفتار کر کے ان کے مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیج دیے گئے۔نو مئی کے واقعات کے مقدمات چلانے کے لیے قائم کی گئیں عدالتوں کو سپریم کورٹ نے پہلے غیر آئینی قرار دیا مگر بعد میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے یہ فیصلہ بدل دیا اور فوجی عدالتوں پر عائد پابندی اٹھا دی۔

تحریک انصاف کے رہنما اشتیاق اے خان کے مطابق جب فوجی عدالتوں کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت تھا تو اس وقت تقریباً سو کے قریب تحریک انصاف کے کارکنان کے مقدمات فوجی عدالتوں کے سامنے تھے۔ ان کے مطابق اس کے بعد مزید کارکنان کو بھی گرفتار کر کے فوجی عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات دائر کیے گئے اور یوں یہ تعداد تقریباً 150 تک پہنچ گئی ہے۔اشتیاق اے خان کے مطابق فوجی عدالتیں بنانے کا مقصد عوام میں خوف و ہراس پھیلانا تھا اور نو مئی کے واقعات کی آڑ لے کر سیاسی کارکنان پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے، جس سے عوام میں نفرت پیدا ہوئی اور پھر آٹھ فروری ان انتقامی کارروائیاں کرنے والوں کے خلاف ایک ریفرنڈم ثابت ہوا ہے۔اشتیاق اے خان نے بتایا کہ ان کی ایک ہفتے قبل اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے اور وہ کسی کے خلاف بھی کوئی انتقام نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق ’عمران خان نے مجھے صرف یہ کہا ہے کہ عوام تو آٹھ فروری کو انقلاب لے آئے ہیں، اب یہ ہم پر ہے کہ ہم کس حد تک عوامی توقعات پر پورا اترتے ہیں اور اس مینڈیٹ کو درست سمت میں لے کر آگے بڑھتے ہیں۔‘

اس اعلامیے پر بصیر میڈیا نے فوج کے دو سابق سینیئر اہلکاروں سے بات کی ہے۔ دونوں نے یہ بتایا ہے کہ انھیں جی ایچ کیو کی طرف سے میڈیا پر آ کر مؤقف دینے سے منع کر رکھا ہے۔ایک ریٹائرڈ جنرل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بصیر میڈیا بتایا کہ ملک کے لیے تو یہی اچھا ہے کہ لڑائی جھگڑے نہ ہوں اور دونوں اطراف یعنی فوج اور تحریک انصاف کو تحمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ان کے مطابق یہ اعلامیے سے یہی پتا چلتا ہے کہ ابھی دونوں اطراف دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔نو مئی سے متعلق بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ریٹائرڈ جنرل کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف تو کبھی یہ نہیں کہتی کہ ان واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمات نہ چلائے جائیں یا انھیں قانون اور انصاف کے کٹہرے میں نہ کھڑا کیا جائے۔ ’جلاؤ گھیراؤ والوں کو تو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔‘

سینیئر صحافی سلمان غنی کے مطابق یہ اعلامیہ تحریک انصاف کے لیے بہت واضح پیغام ہے۔ان کے مطابق عمران خان کے پاس آٹھ فروری ایک سنہری موقع تھا کہ وہ ان نتائج کے بعد سیاسی جماعتوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے اور ڈیڈلاک کو ختم کرتے۔ ان کے مطابق بلاول بھٹو تحریک انصاف کی طرف رجحان رکھتے تھے مگر یہ دروازہ خود عمران خان نے بند کر دیا۔ان کے مطابق اب تحریک انصاف نہ فوج سے اور نہ سیاسی جماعتوں سے ڈیڈلاک ختم کر رہی ہے اور نتیجتاً وہ بند گلی میں کھڑی ہے۔ ’احتجاجی اور مزاحمتی سیاست کا ایک وقت ہوتا ہے، پھر آپ کو مفاہمت کرنا ہوتی ہے۔سلمان غنی کی رائے میں آٹھ فروری کے بعد کے طرز عمل کے بعد تحریک انصاف کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔ان کی رائے میں تحریک انصاف کے حصے والی مخصوصی نشستوں کی دوسری جماعتوں میں تقسیم کا فیصلہ اہل سیاست کے لیے ایک پیغام ہے اور یہ سیاسی طور پر اچھا پیغام نہیں ہے۔

فوجی تنبیہ اور عدالتی ریلیف کے درمیان موجودہ حکومت کہاں کھڑی ہے؟

ایک طرف تحریک انصاف کے رہنماؤں کو عدلیہ سے ان پر قائم مقدمات میں ریلیف مل رہا ہے تو دوسری طرف فوج کی طرف سے یہ واضح پیغام کہ نو مئی کے واقعات سے جڑے کرداروں کو کوئی ریلیف نہیں دیا جائے گا۔نئی حکومت کے قیام میں آنے سے قبل ہی قومی اسمبلی سے تحریک انصاف اور اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کی تقاریر سرکاری ٹی وی پر سینسر کی گئی ہیں۔آٹھ فروری کے بعد جہاں تحریک انصاف عوامی مینڈیٹ چرانے کے الزامات لگا رہی ہے وہیں اسے حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمان، سردار اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی سمیت تین مزید رہنما بھی دستیاب ہو گئے ہیں، جو حکومت پر کسی بھی قسم کی انتقامی کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھانا شروع ہو گئے ہیں۔

اب بظاہر حکومت نے مولانا فضل الرحمان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کر رکھا ہے جبکہ محمود خان اچکزئی کے گھر پر چھاپہ مار کر سخت پیغام بھی دیا گیا ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے تحریک انصاف کو بھی میثاق مفاہمت کی پیشکش کی ہے۔منگل کو کور کمانڈرز کے اعلامیے کے بعد بُدھ کو وزیراعظم شہباز شریف سے آرمی چیف عاصم منیر کی وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات بھی ہوئی ہے۔اس ملاقات کے سے متعلق تو پریس ریلیز میں یہی بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف نے وزیراعظم کو منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے اور ملاقات میں پاک فوج کے پیشہ ورانہ اور سیکیورٹی امور سے متعلق بات چیت ہوئی ہے۔‘

وزیراعظم ہاؤس سے جاری کردہ پریس ریلیز میں نو مئی، آٹھ فروری یا سیاسی مفاہمت کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ایک اور ریٹائرڈ جنرل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فوج سے زیادہ اس وقت حکومت میں بیٹھے لوگ ہی نو مئی کا زیادہ حوالہ دیتے ہیں اور اب وہ اس اعلامیے کو تحریک انصاف کے لیے کارروائی کا سرٹیفکیٹ بنا کر استعمال کریں گے۔ان کے مطابق فوج اپنے معاملات میں حساس ضرور ہے مگر اس اعلامیے کو اب برسراقتدار لوگ اپنے معنی پہنا کر پیش کریں گے۔ انھوں نے بھی نو مئی کے واقعے کی جوڈیشل تحقیقات کو ہی بہتر حل قرار دیا ہے۔ان کے مطابق یاسمین راشد ایک ویڈیو میں یہ کہتی ہوئی واضح سنائی دیتی ہیں کہ کور کمانڈر ہاؤس کے اندر کوئی نہ جائے مگر اس کے باوجود انھیں گرفتار رکھا ہوا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ عدلیہ نے بہت ہی محدود ریلیف دیا ہے جبکہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بڑی تعداد ابھی بھی قید ہے مگر عدلیہ ہے کہ کوئی نوٹس نہیں لے رہی، کوئی ریلیف نہیں دے رہی ہے اور اب حکومت دیدہ دلیری سے مزید ایسے اقدمات کرے گی جس سے تحریک انصاف کو سیاسی طور پر کمزور کیا جا سکے۔اشتیاق اے خان نے کہا کہ ایک طرف عدلیہ 45 برس قبل ہونے والی پھانسی میں ریلیف دے رہی ہے تو یہ عدلیہ کے لیے مشکل ہو گا کہ وہ اب زندہ سیاسی کارکنان اور رہنماؤں کو کسی کے ڈر سے ریلیف نہ دے۔ ان کے مطابق اب حکومت بھی قانون اور آئین سے منھ نہیں موڑ سکتی کیونکہ محض اس وجہ سے کسی کو قید و بند میں نہیں رکھا جا سکتا کہ اس نے ایک خاص واقعے میں کوئی مشورہ دیا تھا۔

ان کے مطابق حکومت جو اچھا کام کر سکتی ہے وہ یہی ہے کہ وہ نو مئی کے واقعات کی جوڈیشل تحقیقات کرائے اور جو بھی ان واقعات کا ذمہ دار ہے انھیں سزا ملے۔ مگر انھوں نے کہا کہ وہ فوجی عدالتوں کو آئین سے ماورا اقدام سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے انھوں نے سپریم کورٹ میں ان فوجی عدالتوں کے خلاف پیٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے۔سلمان غنی کے مطابق ’مفاہمت کی فضا بنانا نئی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جبکہ خود یہ حکومت معاملات کو بحران کی طرف لے کر جا رہی ہے۔‘ ان کے مطابق ابھی بھی حکومت کے پاس آپشن موجود ہے۔ سلمان غنی کے مطابق جب ماضی میں مسلم لیگ ن پر مشکل وقت تھا اور اس کے رہنماؤں پر مقدمات قائم ہو رہے تھے تو شہباز شریف اس وقت بھی ریاستی اداروں سے لڑنے کے بجائے افہام و تفہیم کی بات کرتے تھے تو پھر حکومت میں آنے کے بعد وہ اپنے سیاسی حریف سے یہ افہام و تفہیم کیوں نہیں کر رہے ہیں؟

ان کے مطابق معاملہ کچھ بھی ہو مگر ’یہ لوڈ حکومت پر ہی آئے گا۔ اب پی پی پی کو سیاسی طور پر نقصان پہلے بھی نہیں ہوا اور اب بھی نہیں ہو گا، اس کا نقصان مسلم لیگ ن کو ہو گا کیونکہ کپتان شہباز شریف ہیں۔‘ایک ریٹائرڈ جنرل نے کہا کہ ’تحریک انصاف جیسی جماعت تو موروثی سیاست کرنے والوں کو راس نہیں آتی اور اب وہ آٹھ فروری کا غصہ اس اعلامیے کی آڑ میں نکالیں گے۔‘

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے