بلوچستان کے مسائل کے حل کا وژن کس کے پاس ہے؟

340151-361608386.jpg

جب بلاول بھٹو زرداری نے عام انتخابات سے پہلے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو مناظرے کی دعوت دی تو اسے مُلک کے روایتی سیاسی حلقوں نےایک جوشیلے نوجوان کی سیاسی مہم جوئی سے تعبیر کرتے ہوئے نظرانداز اور مسترد کر دیا۔حالانکہ اگر اس مشورہ کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو یہ جمہوریت اور جمہوری نظام کے لیے ایک بہتر قدم ہوتا جس سے ووٹروں کو اپنے رہنماؤں کے وژن کے بارے میں بہتر آگاہی ملتی بلکہ وہ ان کی حکمت عملی سے بھی واقف ہوتے کہ کسی اہم سیاسی ہدف کے حصول کے لیے وہ کون سے طرائق استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یہ مشورہ اس لیے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کیونکہ ہمارے ہاں پالیسوں کی بنیاد بھی اس بات پر ہوتی ہے کہ ’انشاء اللہ دیکھا جائے گا۔ ‘

چند سیاست دان اس بات پر بضد ہوتے ہیں کہ کسی مخصوص پالیسی پر اس وقت بات ہو گی جب عین موقع پہنچے گا۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ معاشروں میں نا صرف سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور شائع کرتی ہیں بلکہ ان کے رہنما ان پالیسوں سے متعلق مزید آگاہی دینے کے لیے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر انٹرویوز دیتے ہیں اور اخبارات میں مضامین شائع کرتےہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں موجود تمام سوالات کا جواب دیا جائے۔آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج آ بھی گئے اور نتائج کے بارے میں ملاجلا ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ انتخابات میں دھندلی کے الزامات اب روایت بن گئے ہیں۔اب یہ انوکھی بات نہیں رہی کہ انتخابات میں دھندلی کے الزامات انتخابات کے فوری بعد شروع ہو جاتے ہیں اور اگلے انتخابات تک جاری رہتے ہیں۔ تاہم ملکی اور غیر ملکی مبصرین کے خدشات کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ انتخابی نتائج میں اب کوئی خاطر خواہ رد وبدل یا وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کے عمل میں مزید تاخیر یا غیر متوقع تبدیلی ہو گی۔

اب انتخابات کے بعد کا وہ مرحلہ شروع ہوا چاہتا ہے جس میں سب کی نظریں اس بات پر لگ جاتی ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم کے دوران جو وعدے کیے تھے وہ انہیں عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ کیسے شروع کرتی ہیں۔ چونکہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے رہنماؤں کے درمیان انتخابات سے پہلے کوئی مناظرہ نہیں ہوا، ہم یہ سوال ان صفحات ہی پر پوچھ سکتے ہیں کہ بلوچستان میں جاری شورش کو ختم کرنے کے لیے ان کے پاس کیا پالیسی اور حکمت عملی ہے؟اگر وہ انتخابات سے پہلے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے تو تھوڑا بہت اندازہ ہوجاتا کہ وہ صوبے میں جاری علحیدگی پسند تحریک سے نمٹنے یا ممکنہ مذاکرات کے حوالے سے کیا سوچ رہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں لاپتہ افراد اور بلوچ خواتین کی تحریک کے بارے میں بہت کہا اور لکھا گیا ہے لیکن ایک مسئلہ جس پر تاحال سنجیدہ بحث اور بروقت اقدامات کی ضرورت ہے وہ ہے قوم پرست مسلح تنظیموں کا بلوچ نوجوانوں اور خواتین کو اپنے پرتشدد مقاصد کے لیے بطور خود کش حملہ آور استعمال۔جدید دنیا میں جہاں سیاسی حقوق کے حصول کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد ہی قابل قبول طریقہ سمجھا جاتا ہے وہاں مسلح تنظیمیں اپنے وجود اور اپنی کارروائیوں کا جواز فراہم کرنے کے لیے مختلف وجوہات بیان کرتی ہیں۔

تاہم بلوچ لبریشن آرمی بلوچ حقوق کے نام پر اپنی جنگ میں بہت دور نکل گئی ہے۔ یہ تنظیم اپنے مقاصد کے لیے بلوچ نوجوانوں کو برین واش کرکے ان سے قوم پرستی کے نام پر خود کش حملے کروارہی ہے۔ اس کے تازہ ترین مثال حالیہ مچھ آپریشن ہے جس میں سیکورٹی فورسز کی بروقت کارروائی سے کئ بلوچ نوجوان ہلاک ہوئے۔ہم بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ ان نوجوانوں کے سکولوں اور کالجوں میں ہونے کے دن ہیں۔ یہ نوجوان بی ایل اے کے لیے لڑتے ہوئے مر جاتے ہیں یا سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں، دونوں صورت میں یہ مُلک کی سیاسی قیادت کی ناکامی ہی ہے جو نہ صرف بلوچستان کے مسئلہ کا سیاسی حل ڈھونڈنے میں ناکام رہی ہے بلکہ ان نوجوانوں کو وہ پلیٹ فارمز فراہم نہیں کر سکی ہے جو انہیں مسلح تنظیموں کا ایندھن بننے سے روک سکے۔

ہمارے ہاں اگر طالبان یا کوئی مذہبی قوت عورتیں تو دور نوجوان مردوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں تو روشن خیال اور ترقی پسند میڈیا ان پر تنقید کی بوچھاڑ کر دیتا ہے لیکن بلوچ مسلح تنظیموں کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ تاحال ان کی اس غلط پالیسی کی اس قدر مذمت نہیں کی گئی ہے جتنی کی جانی چاہیے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلح تنظیم نوجوانوں کو بزور قوت اپنے ساتھ لے جا کر ان سے خود کش حملے کرواتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر نہ صرف اپنی مرضی سے ان تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں بلکہ ان میں زیادہ تر پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔

یقیناً وہ مسلح تنظیموں کے نظریہ اور بیانیہ سے اس قدر متاثر ہو جاتے ہیں کہ اپنی جان کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس صورت حال کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟چونکہ مسلح تنظیم نوجوانوں کو بطور خود کش حملہ آور استعمال کرنے کو غلط نہیں سمجھتیں وہ اس تمام معاملہ کو اپنی کامیابی گردانتی ہیں کہ نوجوان ان کے موقف سے متاثر ہو کر ان کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔جو لوگ اس عمل کو غلط سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ باقی عوامل پر بھی توجہ دیں جو بلوچ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی کی وجہ بن رہے ہیں۔

اگرچہ اسلام آباد بلوچستان کی اس سنگین صورت حال کی ذمہ داری لینے پر راضی نہیں لیکن اسلام آباد خود کو اس تمام معاملے سے مکمل طور پر بری الذمہ بھی نہیں کر سکتا۔صوبے میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اسلام آباد کی خاموشی کا یہی مطلب ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں صوبہ میں جاری مختلف مارروائے عدالت کارروائیوں کو درست سمجھا جاتا رہا ہے۔ دوسری طرف معتدل اور پرامن جدوجہد کرنے والی بلوچ قوم پرست جماعتیں بھی نوجوانوں کو یہ ترکیب دینے کے ذمہ دار ہیں کہ اگر سیاسی حقوق پارلیمانی جدوجہد سے نہ ملیں تو مسلح جدوجہد ہمیشہ ایک ’آپشن‘ رہے گا۔

قوم پرست جماعتیں جس پارلیمانی نظام کا حصہ ہوتی ہیں اسی کے غیر فعال ہونے کا رونا بھی روتی ہیں جس سے ایک طرح سے مسلح تنظیموں کے بیانیہ کو فروغ اور تقویت ملتی ہے۔بلوچستان میں یہ اب یہ نوبت آگئ ہےکہ اگر کوئی الیکشن ہار جاتا ہے یا کسی ایم پی اے کا وزیراعلیٰ سے اختلاف ہوتا ہے، سب کی ایک ہی دھمکی ہوتی ہے: ’ہمیں پہاڑوں پر جانے پر مجبور نہ کیا جائے۔‘چنانچہ اس دھمکی آمیز لہجے اور رویہ کا نقصان یہ ہے کہ خود سیاسی قوتوں نے بھی ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس میں ایک طرح سے مسلح جدوجہد ہی کو تمام مسائل کے حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

یہ بلاشبہ سیاسی قوتوں کی ایک بڑی ناکامی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو نہ صرف اپنے وجود پر اعتماد ہونا چاہیے بلکہ اپنی توانائیاں جمہوری نظام اوراداروں کو مضبوط کرنے پر صرف کرنی چاہییں۔مسلح قوتوں اور ان کے طریقہ کار کے حق میں کوئی جواز فراہم کرنے بجائے سیاسی رہنما اپنی توجہ اور توانائی اس بات پر لگائیں کہ وہ کیسے پر امن اور سیاسی طریقے سے صوبہ کے سیاسی مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں جمہوری عمل اور ادارے عوامی توقعات پر پوری نہیں اترے ہیں جس کی وجہ سے صوبہ کے نوجوانوں میں ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ مایوسی پھیلی ہے۔ سیاسی نظام کا غیر فعال ہونا اپنی جگہ لیکن بلوچستان کا اس وقت سب سے اہم مسئلہ بلوچ نوجوانوں خاص کر خواتین کا مسلح تنظیموں میں بطور خود کش حملہ آور یا جنگجو شامل ہونا ہے۔

یہ مسئلہ بہت جلد صوبہ میں قائم ہونے والی نئی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے کیونکہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ محض فوجی آپریشن، پکڑ دھکڑ یا مزید لوگوں کو لاپتہ کرنے سے حل ہو سکتا ہےتو وہ غلط سوچ رہے ہیں۔ یہ معاملہ ایک دیرپا حل کا متقاضی ہے۔کیا پی پی پی یا مسلم لیگ ن کے پاس اس مسئلے سے نمٹنے کا کوئی پلان ہے؟

 

کالم نگار – ملک سراج اکبر

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے