مغربی ایشیا خطہ وسیع علاقائی جنگ کے دہانے پر

Map_of_Central_Asia.png

7 اکتوبر 2023ء کے دن حماس نے اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصی فوجی آپریشن انجام دیا جس کے جواب میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کو شدید فوجی جارحیت کا نشانہ بنایا جو اب تک جاری ہے۔ گذشتہ تقریباً چار ماہ سے جاری اس جارحیت میں اب تک دسیوں ہزار بیگناہ فلسطینی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ مزید برآں، دنیا کے دیگر ممالک بھی از جنگ میں شامل ہو چکے ہیں۔ سب سے پہلے امریکہ نے غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے دو جنگی بحری بیڑے بحیرہ قلزم روانہ کر دیے۔ امریکہ کا دعوی تھا کہ اس نے یہ اقدام دیگر طاقتوں کی جانب سے اسرائیل پر ممکنہ حملے کی روک تھام کیلئے انجام دیا ہے۔ امریکہ کا سب سے پہلا نشانہ حزب اللہ لبنان تھا جس نے مقبوضہ فلسطین کے ساتھ لبنان کی سرحد پر اسرائیل کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا تھا۔
امریکہ غزہ جنگ کی ابتدا سے ہی اسرائیل کی بھرپور فوجی، انٹیلی جنس، مالی، اسلحہ جاتی اور سفارتی مدد کرنے میں مصروف ہے۔ اسی مدد کے باعث اسرائیل غزہ میں تباہ کن جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے جسے کچھ ہفتے پہلے عالمی عدالت انصاف نے فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیا ہے اور اسرائیلی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد اسے روکنے کیلئے موثر اقدامات انجام دے۔ لیکن امریکہ کی غیر مشروط اور ہمہ جہت حمایت کے باعث غاصب صیہونی حکمرانوں کے ہاتھوں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی طول پکڑتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں مشرق وسطی خطے میں تناو بھی مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مزید برآں، امریکہ نے اپنی مسلح افواج کو براہ راست اسلامی مزاحمتی بلاک کے روبرو لا کھڑا کیا ہے۔ اسلامی مزاحمتی بلاک مغربی ایشیا خطے میں ایران کے حمایت یافتہ مزاحمتی گروہوں پر مشتمل ہے۔
ایسے گروہوں کی ایک مثال لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ لبنان نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصے میں اسرائیل کے خلاف ایک نیا محاذ کھول کر اس کی فوجی طاقت کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح گذشتہ برس نومبر میں یمن میں اسلامی مزاحمتی گروہ انصاراللہ نے بھی غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ انصاراللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین حوثی نے اعلان کیا تھا کہ جب تک غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور ظالمانہ محاصرہ جاری رہے گا وہ بحیرہ احمر میں اسرائیلی کشتیوں سمیت ہر ایسی کشتی کو میزائل حملوں کا نشانہ بناتے رہیں گے جو اسرائیلی بندرگاہوں کی جانب گامزن ہو گی۔ اس کے ردعمل میں امریکہ نے برطانیہ اور چند دیگر مغربی ممالک سے مل کر ایک نام نہاد فوجی اتحاد تشکیل دیا اور یمن پر فضائی حملے شروع کر دیے۔
7 اکتوبر 2023ء سے اب تک عالمی رائے عامہ میں غزہ میں انجام پانے والے انسان سوز جرائم کے باعث اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نیز اس کے مغربی حامیوں کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس نے امریکہ کی پوزیشن شدید متاثر کی ہے۔ دسمبر اور جنوری میں 16 عرب ممالک میں انجام پانے والے ایک سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں شمولیت اختیار کرنے والے 94 فیصد عرب شہریوں نے غزہ جنگ کے بارے میں امریکہ کے کردار کی مذمت کی ہے۔ اسی طرح تیونس میں بیرومیٹر عرب کی سروے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات رکھنے والے عرب حکمرانوں کی محبوبیت میں 7 اکتوبر کے بعد شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی عرب دنیا میں محبوبیت عرب حکمرانوں کے برابر اور حتی ان سے بھی بڑھ چکی ہے۔
امریکہ ایک طرف غزہ میں مظلوم فلسطینی شہریوں کی نسل کشی کرنے میں غاصب صیہونی حکمرانوں کی مدد کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف اس کے ردعمل کے طور پر عراق، شام اور یمن میں انجام پانے والی اسلامی مزاحمتی گروہوں کی فوجی کاروائیوں کو فوجی طاقت کے ذریعے ختم کرنے کے درپے ہے۔ یہ ایک ایسا تضاد ہے جس کا نتیجہ خطے میں تناو کی شدت میں مزید اضافہ ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ امریکہ اپنے بارے میں جو بھی سوچتا ہے وہ اپنی جگہ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ایشیا خطے میں تمام گروہ اور ممالک اسے غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی جیسے گھناونے جرم میں اسرائیل کا شریک جرم گردانتے ہیں۔ امریکہ اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں ڈیٹرنس طاقت کھو چکا ہے۔ عراق اور شام میں اس کے فوجی اڈے مزاحمتی کاروائیوں کی زد میں ہیں جبکہ بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن اس کی جنگ کشتیوں کو میزائل حملوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔
اسلامی مزاحمت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ امریکہ مشرق وسطی خطے میں خود کو ایک نئی بھرپور جنگ میں پھنسانا نہیں چاہتا۔ لہذا وہ اس بات کو خارج از امکان سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ وسیع جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں ایک صحافی نے امریکی صدر جو بائیڈن سے سوال پوچھا کہ حوثیوں کے خلاف آپ کے فوجی اقدامات موثر ہیں؟ تو بائیڈن نے جواب دیا: "اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ان سے حوثیوں کی کاروائیاں رک جائیں گی؟ تو میرا جواب ہے کہ نہیں اور اگر آپ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہم یہ حملے جاری رکھیں گے؟ تو میں کہوں گا ہاں۔” امریکی صدر کا یہ بیان ایک طرف امریکہ کی خارجہ سیاست میں الجھاو ظاہر کرتا ہے تو دوسری طرف حد درجہ لاپرواہی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اس وقت مشرق وسطی خطے میں بہت سے کھلاڑی سرگرم ہیں اور یہ خطہ بھرپور علاقائی جنگ سے صرف ایک قدم کے فاصلے پر کھڑا ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے