مشی گن الیکشن، ٹرمپ اور بائیڈن کامیاب، غزہ پر ’احتجاج کا ووٹ‘ کس طرف؟

2578425-israelibombartment-1702636922-632-640x480.jpg

صدر جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو ریاست مشی گن کے پرائمری انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی ہے تاہم غزہ جنگ کے حوالے سے ’احتجاجی ووٹ‘ کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔خبر رساں اداروں اے پی اور روئٹرز کے مطابق موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے منی سوٹا کے نمائندے ڈین فلپس کو شکست دی جو پرائمری انتخابات میں ان کے اہم ڈیموکریٹک حریف تھے۔

انتخابات سے قبل بعض حلقوں کی جانب سے احتجاج کے طور ’غیرپابند‘ (اَن کمٹڈ) ووٹ دینے کی اپیل کی گئی تھی جس کا مقصد بائیڈن پر اسرائیل پالیسی کے حوالے سے دباؤ ڈالنا تھا۔الیکشن میں 14 فیصد ووٹرز، جن کی تعداد 20 ہزار سے زائد بنتی ہے، نے اسرائیلی جنگ کی مخالفت میں بائیڈن کے خلاف ’غیرپابند‘ ووٹ دیا۔
مشی گن میں عرب نژاد امریکی بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں اور غزہ جنگ کے حوالے وہاں کے مکینوں میں ناراضی پائی جاتی ہے۔

انتخابات میں ڈیموکریٹس ’آزاد یا غیرپابند‘ ووٹس کا قریب سے جائزہ لیتے رہے کیونکہ مشی گن بائیڈن کے ’غیرمطمئن اتحادیوں‘ کے مرکز کے طور پر سامنے آیا ہے اور یہ وہی اتحادی ہیں جن کی بدولت وہ ریاست اور قومی سطح پر 2020 میں کامیاب ہوئے تھے۔وہاں آزاد ووٹوں کی تعداد پہلے ہی 10 ہزار کے مارجن سے بڑھ چکی ہے اور اسی کی وجہ سے ہی ٹرمپ نے 2016 میں مشی گن میں کامیابی حاصل کی تھی، اب یہ تعداد احتجاج کے لیے کوشاں منتظمین کی جانب سے مقرر کیے ہدف سے بھی آگے نکل گئی ہے۔

جہاں تک سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے تو انہوں نے ریپبلکن کے پرائمری کیلنڈر پر پہلی پانچ ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔مشی گن میں ان کی آخری بڑی کامیابی ایک بڑے حریف کو شکست دینے کے بعد سامنے آئی ہے۔ انہوں نے سنیچر کو اقوام متحدہ کی سابق سفیرنکی ہیلی کو ان کی آبائی ریاست جنوبی کیرولینا میں 20 پوائنٹس کے ساتھ شکست دی تھی۔ٹرمپ کی جانب سے مارچ کے وسط میں ریپبلکن کی نامزدگی کو محفوظ بنانے کے لیے درکار ایک ہزار دو سو 15 مندوبین جمع کرنے کے لیے کوشاں ہے۔دونوں امیدواروں منگل کو آنے والے نتائج کا بغور جائزہ لیا جس میں ان کی متوقع فتح کے علاوہ بھی کئی نکات شامل تھے۔بائیڈن کے لیے ووٹروں کی جانب سے ’غیرپابند‘ راہ اپنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ڈیموکریٹس کی اکثریت رکھنے والی ریاستوں میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ وہ نومبر میں ہونے والے مزید چناؤ میں شکست کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

دوسری جانب ٹرمپ کی جانب سے بھی مضافاتی ووٹروں اور کالج کی ڈگری رکھنے والے افراد کے ساتھ رابطوں میں کمی ظاہر ہوئی ہے اور ان کو اپنی پارٹی کے اندر سے ہی ایک ایسے دھڑے کا سامنا ہے جس کا خیال ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف درج ہونے والے فوجداری مقدمات کے ضمن میں ایک یا ایک سے زائد بار توڑا ہے۔
مشی گن کے انتخابات سے قبل صدر بائیڈن اور وائٹ ہاؤس کے حکام نے مشی گن کا دورے کیے جس کا مقصد مقامی کمونٹیز کے رہنماؤں سے حماس اسرائیل جنگ کے بارے میں بات کی جا سکے اور بتایا جائے کہ صدر بائیڈن اس معاملے کو کس طرح سے دیکھ رہے ہیں تاہم کاور صدر کی جانب سے اس ضمن میں کیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے آگاہ کرنا تھا تاہم یہ کوشش زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئی۔

نچلی سطح پر اسرائیل حماس جنگ پر اعتراضات کے تناظر میں ہونے والی کوشش ووٹرز کی رائے کو ’غیرپابند‘ ووٹوں میں ڈھالنے کام کرتی رہی۔ یہ صورت حال اس سے قبل ہونے والے مقابلوں میں بھی بائیڈن کے لیے چیلنج رہی ہے۔چند ہفتے قبل شروع ہونے والے اس سلسلے کو راشدہ طلیب جو پہلی فلسطینی نژاد امریکی نمائندہ ہیں اور سابق نمائندہ اینڈی لیون کی حمایت حاصل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے