مریم نواز: ’پارٹ ٹائم سیاست دان‘ سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ تک کا سفر
صرف دو برس قبل تک وہ انتخابات میں حصہ لینے کی بھی اہل نہیں تھیں تاہم حالیہ انتخابات کے بعد پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز صوبہ پنجاب کی وزیراعلی منتخب ہو چکی ہیں۔ساتھ ہی وہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلی بنی ہیں۔ ملک کی انتخابی سیاست میں مرکزی اہمیت کے حامل پنجاب کی اسمبلی میں ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت بن کر ابھری ہے۔کسی بھی دوسری جماعت کی حمایت کے بغیر ہی ایوان میں انھیں واضح عددی برتری حاصل ہے۔اس لیے پیر کے روز اسمبلی میں ہونے والے وزیراعلی کے چناؤ میں مریم نواز کو کسی پیچیدگی کا سامنا نہیں کرنا پڑا
تاہم سنہ 2022 سے پہلے تک انتخابی سیاست میں حصہ لینا ہی مریم نواز کے لیے سب سے بڑی پیچیدگی تھی۔ سنہ 2018 میں ایک احتساب عدالت نے انھیں ایوان فیلڈ کیس میں سات برس کی سزا سنائی تھی۔انھیں اس مقدمے میں ’اپنے والد نواز شریف کی لندن میں پراپرٹی کو چھپانے میں اعانت‘ کرنے پر سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی انھیں دس برس تک انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا تھا۔تاہم سنہ 2022 میں اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا تختہ مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی الٹ دیا۔ مریم نواز کے چچا شہباز شریف نئے وزیراعظم منتخب ہو گئے۔اسی برس ستمبر میں اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ کیس میں مریم نواز کی سزا ختم کر دی اور وہ دوبارہ انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لیے اہل ہو گئیں۔ اس طرح حالیہ عام انتخابات میں پہلی مرتبہ انھوں نے انتخابی سیاست میں قدم رکھا۔
سنہ 2016-17 سے قبل مریم نواز عملی سیاست میں نہیں آئیں تھیں۔ اس وقت تک ان کی زیادہ تر توجہ اپنے والد کی جماعت ن لیگ کے سوشل میڈیا ونگ کو فعال بنانے اور یوتھ کو متحرک کرنے پر مرکوز رہی تاہم 2017 اپنے والد کے پانامہ کیس میں وزارت عظمٰی سے ہٹائے جانے کے بعد مریم نواز عملی سیاست میں متحرک ہوئیں۔اس کے بعد انھوں نے نواز شریف کے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے مزاحمتی بیانیے کی عوام میں ترجمانی سے لے کر جیل جانے، جماعت کا چیف آرگنائزر اور نائب صدر بننے اور پھر دوسری سمت میں پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران مظاہمتی بیانیے کو ترک کرنے سے لے کر وزارتِ اعلٰی کی کرسی تک کا سفر بہت تیزی سے مکمل کیا۔
صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ابتدا میں مریم نواز اپنی سیاسی جانشینی کے لیے نواز شریف کا پہلا انتخاب نہیں تھیں ’اور وہ پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی بھی پسندیدہ نہیں رہیں۔‘ایسے میں مریم نواز پاکستان کسی بھی صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلٰی بننے میں کیسے کامیاب ہو گئیں۔ یہ جاننے کے لیے ان کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔
پرویز مشرف کا مارشل لا اور شریف خاندان کی ملک بدری
تجزیہ نگار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کے سیاست میں کردار کے حوالے سے سابق وزیراٰعظم نواز شریف کے خیال میں تبدیلی کی بنیاد ان دنوں میں پڑی جب سنہ 1999 کے مارشل لا کے بعد شریف خاندان کو سعودی عرب کی طرف ملک بدر کیا گیا۔یہ وہ دور تھا جب سعودی عرب میں نواز شریف اپنی اہلیہ کلثوم نواز اور اپنی بیٹی مریم نواز سے گھنٹوں سیاست پر بات چیت کیا کرتے۔‘ کلثوم نواز پہلے ہی سے نواز شریف کی سیاسی فیصلہ سازی پر اپنا اثر رکھتی تھیں۔ نواز شریف ان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ مریم نواز نے پس پردہ عملی سیاست کا پہلا ذائقہ 1999 کے اسی دور میں لے لیا تھا۔ ’جب ان کے والد اور خاندان کے دیگر مردوں کو جیل میں ڈال دیا گیا تو ان کی رہائی کے لیے آواز اٹھانے میں مریم نواز شانہ بشانہ رہیں۔‘اپنے کئی رابطوں کا حوالہ دیتے ہوئے سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’وہ خود سے سامنے نہیں آتی تھیں لیکن بعض مرتبہ وہ بیگم کلثوم نواز سے زیادہ متحرک ہوتی تھیں۔سلمان غنی کہتے ہیں کہ مریم نواز کو یہ ’قدرے سیاسی‘ کردار حالات کی وجہ سے نبھانا پڑا تاہم جلا وطنی کے برسوں اور ملک بدری ختم ہونے پر پاکستان آنے کے بعد بھی مریم نواز نے عملی سیاست سے خود کو دور رکھا۔
سوشل میڈیا سے پارٹی کی سیاست میں داخلہ
یہ سنہ 2011 کے بعد کی بات ہے جب عمران خان اور ان کی جماعت نے جلسے جلوسوں کے ذریعے اور خاص طور پر سوشل میڈیا کے استعمال سے نوجوان نسل کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا کہ ن لیگ نے پہلی مرتبہ تیزی سے بدلتے سیاسی منظرنامے پر توجہ دی۔پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت ہونے کے باوجود عمران خان نے اس برس لاہور کے مینارِ پاکستان کے مقام پر ایک بہت بڑے جلسے کا انتظام کیا جس میں وہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی تھی۔اس کے بعد سنہ 2012 میں ن لیگ پاکستان تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے اثر کا مقابلہ کرنے کے لیے مریم نواز کو میدان میں لے کر آئی۔ انھوں نے ن لیگ کے میڈیا ونگ کو متحرک کیا اور سوشل میڈیا پر خاص توجہ مرکوز کی۔
تجزیہ نگار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ یہاں سے مریم نواز نے جماعت کے اندر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا بھی شروع کیا۔ ’نواز شریف نے بھی غالبا زیادہ سنجیدگی سے ان کی سیاسی سمجھ بوجھ کو بھانپنا شروع کیا۔سنہ 2013 میں جب نواز شریف کی مرکز میں حکومت قائم ہوئی مریم نواز کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن مقرر کر دیا گیا تاہم وہ زیادہ عرصہ اس عہدے پر قائم نہ رہ سکیں اور اس وقت انھیں اس کو خیرباد کہنا پڑا جب پی ٹی آئی نے ان کی تعیناتی کو ’سفارش کلچر کا شاخصانہ‘ قرار دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔اس وقت تک بھی مریم نواز یہ اصرار کرتی رہیں کہ ’وہ صرف اپنے والد کی جماعت کے سائبر سیل کی اعانت کر رہی ہیں اور ان کا عملی سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں‘ تاہم جلد ہی انھیں یہ فیصلہ بدلنا پڑا۔
عملی سیاست میں قدم
سنہ 2017 میں ایک مرتبہ پھر نواز شریف وزارتِ عظمٰی کھو بیٹھے۔ اس مرتبہ پانامہ مقدمے میں ان کو سپریم کورٹ سے سزا ہوئی اور وہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا ایک مزاحمتی بیانیہ لے کر سڑکوں پر آ گئے جس میں انھوں نے اس وقت کی فوجی قیادت اور اعلٰی عدلیہ کو نشانے پر لیا۔نواز شریف نے پنجاب میں جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے جگہ جگہ جلسے کیے اور اپنی تقاریر میں عدلیہ اور اس وقت کی فوجی قیادت کو اپنی وزارتِ عظمٰی چھیننے کا ذمہ دار قرار دیا۔ پنجاب میں ان کے اس بیانیے کو پذیرائی ملتی نظر آ رہی تھی۔تاہم اس کے بعد پانامہ سے متعلق مقدمات میں جب نواز شریف کو عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑے اور بعدازاں انھیں سزائیں ہوئیں تو ان کی جگہ مریم نواز نے عوام میں جا کر ان کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کی ترجمانی شروع کی۔ یہ عملی سیاست میں ان کا پہلا قدم تھا۔
صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس وقت تک نواز شریف کے لیے ان کے جانشین کے امیدوار صرف حمزہ شہباز شریف تھے ’لیکن اس کے بعد حالات بدل گئے۔ مریم نواز اپنے والد کے ساتھ مزاحمتی بیانیے پر ڈٹ کر کھڑی ہوئیں۔سہیل وڑائچ نے اپنے ایک حالیہ کالم کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ یہ پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ اس دور میں نواز شریف کے بیانیے پر ڈٹ کر کھڑے رہنے، ان کا ساتھ دینے، ان کے ساتھ جیل کاٹنے اور پھر ان کی غیر موجودگی میں جماعت کو فعال رکھنے جیسے اعمال سے مریم نواز اپنے والد کے لیے جانشینی کے امیدوار کی جگہ لے چکی تھیں۔یہی وہ جگہیں ہیں جہاں حمزہ شہباز مریم نواز سے پیچھے رہ گئے اور آج وہ نہیں بلکہ مریم نواز صوبہ پنجاب کی وزیراعلٰی ہیں۔‘سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے تک ن لیگ میں پارٹی کی آرگنائزیشن کی سطح پر حمزہ شہباز ہی معاملات کو سنبھال رہے تھے۔
مریم نواز پہلے سینیئر نائب صدر، پھر پارٹی کی چیف آرگنائزر
سنہ 2018 میں نواز شریف کے ساتھ مریم نواز کو بھی لندن واپسی پر پانامہ مقدمے کے فیصلے سے جڑے ایون فیلڈ پراپرٹیز کے مقدمے میں احتساب عدالت نے سزا سنا دی۔ انھیں سات برس کی جیل ہوئی اور انھیں دس سال کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔اس وقت وہ 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی تھیں اور کاغذات بھی جمع کروا چکی تھیں۔کچھ ہی ماہ بعد انھیں ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے پر ضمانت پر رہائی ملی۔ سنہ 2019 میں انھیں دوبارہ چوہدری شوگر ملز کیس میں گرفتار کر لیا گیا اور لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا جہاں نواز شریف پہلے سے قید تھے۔
اسی برس کے آخر میں نواز شریف کو طبیعت خراب ہونے پر پہلے جیل سے ہسپتال منتقل کیا گیا اور پھر ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کی غرض سے لندن جانے کی اجازت دی گئی۔ نواز شریف کو چند ہفتوں کے لیے جانے کی اجازت ملی تھی تاہم وہ حالیہ انتخابات سے پہلے واپس نہیں آئے۔مریم نواز ان کے لندن جانے سے پہلے ہی ضمانت پر جیل سے باہر آ چکی تھیں تاہم انھیں لندن جانے کی اجازت نہ ملی اور عدالت کے حکم پر ان کا پاسپورٹ رکھ لیا گیا۔
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ اس دور میں نواز شریف مریم نواز ہی کو اپنا سیاسی جانشین بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ’یہی وجہ تھی کہ نواز شریف کی غیر موجودگی ہیں مریم نواز کو پہلے سینیئر نائب صدر اور پھر پارٹی کا چیف آرگنائزر بنا دیا گیا۔وہ کہتے ہیں اس کا مقصد یہ تھا کہ مریم نواز جماعت کی آرگنائزیشن کریں اور نچلی سطح تک پارٹی کے ورکرز کے ساتھ رابطہ قائم کریں۔ نواز شریف کی غیر موجودگی میں وہ ہی نواز شریف کے لیے پارٹی کے معملات کو چلاتی رہیں۔
پی ڈی ایم حکومت میٍں مزاحمتی بیانیے کا کیا ہوا؟
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ مریم نواز ابتدا ہی سے قدرتی طور پر مزاحمتی اور جارحانہ انداز اپنانے کی طرف مائل تھیں۔ ’وہ باہمت خاتون ہیں جو مشکل اور جارحانہ فیصلے لینا جانتی ہیں۔تاہم سنہ 2022 میں جب ان کی جماعت سمیت حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نامی تحریک نے عمران خان کی حکومت ختم کی اور شہباز شریف کی قیادت میں اپنی حکومت قائم کی تو مریم نواز کا ’اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف‘ مزاحمت کا بیانیہ سیاسی منظرنامے پر نظر نہیں آیا۔
وہ خود بھی پس پردہ چلی گئیں۔ مہنگائی اور عوام درپیش دیگر مسائل کے دور میں پی ڈی ایم حکومت کے دوران انھوں نے کچھ پریس کانفرینسز ضرور کیں تاہم ان کا کردار زیادہ تر تجاویز دینے اور نواز شریف کی امیج بلڈنگ تک محدود نظر آیا۔اسی برس ستمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ مقدمے میں ان کی سزا ختم کر دی اور ان کے چچا شہباز شریف کی حکومت نے الیکشن قوانین میں ترامیم بھی منظور کروا لیں جس کے نتیجے میں مریم نواز اور نواز شریف کے لیے ایک مرتبہ پھر انتخاب لڑنے کی اجازت مل گئی۔پی ڈی ایم کے دورِ حکومت میں ’مزاحمتی بیانیے پر خاموشی‘ اور پس پردہ جانے پر صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’یہ بھی دیکھیں کہ اس وقت نواز شریف خود بھی اپنے اس مزاحمتی بیانیے پر خاموشی اختیار کرتے نظر آ رہے تھے تو مریم نے بھی وہی لائن لی۔
اسٹیبلشمنٹ کی ’ناپسندیدہ‘ ہو کر وزارتِ اعلٰی تک کیسے پہنچیں؟
مریم نواز نے حالیہ انتخابات میں قومی اور صوبائی دونوں اسمبلیوں کے لیے ایک ایک نشست پر لاہور سے حصہ لیا اور دونوں پر کامیاب ہو گئیں۔ مرکز اور پنجاب میں سامنے آنے والی پارٹی پوزیشن کے بعد ان کی جماعت نے انھیں صوبہ پنجاب کی حکومت میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ن لیگ نے جلد ہی پارٹی کی طرف سے ان کے وزارتِ اعلٰی کے امیدوار ہونے کا اعلان کر دیا جب انھیں یہ یقین ہو گیا کہ وہ پنجاب میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آ رہے ہیں اور باآسانی حکومت بنا لیں گے۔تاہم انتخابات کے وقت تک یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ پنجاب کی وزارتِ اعلٰی لے پائیں گی۔
اس میں ایک پہلو یہ بھی تھا کہ تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے مطابق ’مریم نواز ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ نہیں رہیں تھیں۔تو حالیہ انتخابات سے قبل عمومی تاثر یہ تھا کہ ایسے کسی شخص کا کسی بڑے عہدے پر آنا مشکل ہو گا تاہم صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نواز شریف کو کمپنسیٹ (ازالہ) کیا گیا کیونکہ انھیں وزارت عظمٰی نہیں دی گئی۔تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ وزارت اعلٰی پر مریم نواز کو توجہ سے دیکھے گی۔ ’حزبِ اختلاف کو نشانہ بھی وہی ہوں گی کیونکہ وہ ان ہی کو نواز شریف کے مستقبل کے جانشین کے طور پر دیکھیں گے کسی اور کو نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مریم نواز کو ایوان کے اندر اور باہر دونوں مقامات پر حزبِ اختلاف کی طرف سے جارحانہ رویے کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور یہی ان کی صلاحیتوں کا ٹیسٹ ہو گا کہ وہ ان معاملات کو کیسے سنبھالتی ہیں۔
اب تک وہ پارٹ ٹائم سیاست دان تھیں
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’اب تک مریم نواز پارٹ ٹائم سیاست دان تھیں، وہ وہی کرتی تھیں جس کی ان کو نواز شریف سے ہدایات ملتی تھیں۔ ان کی فل ٹائم سیاست کا اب آغاز ہونے جا رہا ہے۔صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کو حالات کی وجہ سے ’مجبوری سے عملی اور انتخابی سیاست میں آنا پڑا اور شریف خاندان میں خواتین کے سیاست میں آنے کی کوئی روایت بھی نہیں رہی۔‘
تاہم تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کو نہ صرف ایک منتظم کے طور پر اپنی صلاحیتوں کو منوانا ہو گا بلکہ ان کا ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہو گا کہ وہ پنجاب کی اس مڈل اور اربن کلاس کو واپس ن لیگ کی طرف لائیں جو اب پی ٹی آئی کی طرف جا چکی ہے۔50 سالہ مریم نواز تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ ان کی شادی سنہ 1992 میں کیپٹن ریٹائرد صفدر سے ہوئی۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔