بحیرہ احمر میں تجارتی رکاوٹ سے زیادہ تر برطانوی برآمد کنندگان متاثر
ایک سروے کے مطابق زیادہ تر برطانوی برآمد کنندگان اور مینوفیکچررز پر بحیرہ احمر میں یمن کی مزاحمتی تنظیم ” انصار اللہ ” کی جانب سے تجارتی جہازوں پر حملوں سے رکاوٹوں کے اثرات محسوس کیے گئے ہیں۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق برٹش چیمبرز آف کامرس نے کہا ہے کہ 55 فیصد برآمد کنندگان نے اس رکاوٹ کو رپورٹ کیا جبکہ 53 فیصد مینوفیکچررز اور بزنس ٹو کنزیومر سروسز فرموں نے اس کے اثرات کو محسوس کیا ہے جبکہ تمام کاروباروں نے اوسطا 37 فیصد اثرات کا ذکر کیا ہے۔
برٹش چیمبرز آف کامرس کے تجارتی پالیسی کے سربراہ ولیم بین نے کہا کہ ’ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے شپنگ فریٹ انڈسٹری میں اضافی صلاحیت موجود ہے، جس سے ہمیں کچھ وقت ملا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’لیکن ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ موجودہ صورتحال جتنی دیر تک برقرار رہے گی، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ لاگت کا دباؤ بڑھنا شروع ہو جائے گا۔
کچھ کاروباری اداروں نے اطلاع دی کہ کنٹینرز کے کرائے کی لاگت چار گنا بڑھ گئی ہے، جبکہ بعض کمپنیوں کو سامان کی ترسیل میں تین سے چار ہفتوں کی تاخیر، ساتھ ہی کیش فلو کی مشکلات اور پارٹس کی کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔بینک آف انگلینڈ نے بحیرہ احمر میں تجارتی سامان کی ترسیل میں خلل کو اس سال افراط زر کے لیے ایک اہم خطرے کے طور پر اجاگر کیا ہے، حالانکہ آج تک مشرق وسطیٰ میں حملوں اور وسیع تر تنازعات کا برطانیہ میں اس سے کم اقتصادی اثر پڑا ہے جتنا کہ اسے اصل میں خدشہ تھا
غزہ پر اسرائیلی بمباری کے بعد ” انصار اللہ ” نے نومبر سے فلسطینیوں کی حمایت میں بحیرہ احمر، باب المندب آبنائے اور خلیج عدن میں مسلسل ڈرون اور میزائل حملوں میں جہازوں کو نشانہ بنایا ہے۔گزشتہ ہفتے ” انصار اللہ ” نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ سے روابط رکھنے والے بحری جہازوں پر حملے تیز کریں گے
برٹش چیمبرز آف کامرس نے اپنا سروے 15 جنوری سے 9 فروری کے دوران کیا جن میں ایسی ایک ہزار سے زائد کمپنیوں سے سوال پوچھے گئے جہاں ملازمین کی تعداد 250 سے کم تھی۔جمعرات کو ایس اینڈ پی پرچیزنگ منیجرز انڈیکس نے ظاہر کیا کہ برطانوی کاروباری اداروں کی لاگت فروری میں چھ ماہ کیتیز ترین شرح سے بڑھی ہے۔ بہت سے مینوفیکچررز کی طرف سے بحیرہ احمر میں خلل سے متعلق زیادہ مال برداری کے اخراجات بڑھنے کا حوالہ دیا گیا تھا۔