پنجاب اسمبلی کا پہلا اجلاس ” صحافتی ڈائری "
صوبہ پنجاب کی اسمبلی میں نومنتخب ارکان نے آج حلف اٹھا لیا ہے۔ تحریک انصاف سے وابستہ اسمبلی کے سپیکر سبطین خان نے نئے آنے والے اراکین سے حلف لیا۔آج صبح ہی پنجاب اسمبلی کے اردگرد پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔ اسمبلی گیٹ پر سکیورٹی کے تین حصار بنائے گئے تھے۔ اجلاس کا وقت 10 بجے تھا، تاہم مسلم لیگ ن سے وابستہ اراکین اسمبلی 9 بجے ہی پہنچنا شروع ہو گئے۔
خود مریم نواز بھی سوا نو بجے اسمبلی کی عمارت میں پہنچ چکی تھیں البتہ ان کے لیے پنجاب اسمبلی کے پرانے گیٹ سے گاڑی اندر لانے کا اہتمام کیا گیا تھا اور اسمبلی کے مرکزی دروازے کے بجائے وزرائے اعلی کے لیے مخصوص دروازے سے انہیں لایا گیا۔انہوں نے آتے ہی مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کی اور اسمبلی اجلاس کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کیا۔ جس انداز سے پولیس اور اسمبلی کے سیکیورٹی سٹاف کی تیاری لگ رہی تھی اس کے برعکس تحریک انصاف کی حمایت سے اسمبلی پہنچنے والی جماعت سنی اتحاد کونسل کے اراکین بوجھل قدموں سے اکا دکا ہی اسمبلی کی عمارت میں آ رہے تھے۔
خیال تھا کہ سنی اتحاد کونسل پی ٹی آئی ورکرز کے ساتھ اسمبلی میں آئیں گے اور ان کے وہ اراکان بھی آج سامنے آئیں گے جو 9 مئی کے بعد روپوش ہیں۔ اور پولیس کی تیاری انہی کے لیے تھی۔تاہم نہ تو ورکرز آئے اور نہ ہی اسمبلی گیٹ پر کوئی ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔دس بجتے ہی اسمبلی ہال کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں تاکہ نومنتخب اراکین اپنی نشستیں سنبھالیں تاہم گھنٹیاں بنتی رہیں اور کوئی بھی ہال میں نہیں آیا۔ ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد اسمبلی کی کارروائی کی کوریج کے لیے آئے ہوئے صحافیوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوئیں کہ ابھی تک تو سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان ہی نہیں آئے۔
یہ چہ مگوئیاں خبروں میں تبدیل ہو گئیں اور اس بات پر بحث شروع ہو گئی کہ اگر سپیکر نہ آئے تو پھر اس اجلاس کا کیا بنے گا۔ کیونکہ اس سے قبل سپیکر ایک بیان جاری کر چکے تھے کہ جب تک اسمبلی کے اراکین کی تعداد پوری نہیں ہوتی تب تک اجلاس نہ بلایا جائے۔ سنی اتحاد کونسل کو ابھی 27 مخصوص نشستیں الاٹ نہیں ہوئیں اس لیے اسمبلی مکمل نہیں۔لیکن 12 بجے کے قریب تمام تجزیے دم توڑ گئے جب تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کی گاڑی اسمبلی احاطے میں داخل ہوئی۔
پنجاب اسمبلی کی کارروائی ٹھیک 12 بج کر 19 منٹ پر شروع ہوئی اور اس سے پہلے تقریبا سبھی جماعتوں کے نومنتخب اراکین اپنی نشستوں پر براجمان ہو چکے تھے مریم نواز بھی اسمبلی ہال میں موجود تھیں۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی، استحکام پارٹی اور ق لیگ کے اراکین حکومتی بینچوں پر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین اپوزیشن بینچوں پر۔سنی اتحاد کونسل کے 97 اراکین اسمبلی کے فلور پر پہنچ چکے تھے، ان میں تحریک انصاف کے لاہور کے سابق صدر امتیاز شیخ سمیت پانچ ایسے اراکین بھی تھے جو 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے روپوش تھے۔ شیخ امتیاز کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور ان کی شکل بھی نہیں پہچانی جا رہی تھی۔
اجلاس شروع ہوتے ہی صورت حال ہنگامہ خیز ہو گئی اپوزیشن نے حلف کو اس بات سے مشروط کر دیا کہ جب تک میاں اسلم اقبال کی بحفاظت اسمبلی میں آمد، اور تحریک انصاف کے حامیوں کو وزٹنگ گیلری تک رسائی نہیں دی جاتی اجلاس نہیں چلے گا۔
سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان بار بار اپوزیشن کے اراکین کو ناموں سے مخاطب کر کے انہیں سنی اتحاد کونسل کے اراکین کہہ رہے تھے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ انہیں تحریک انصاف کے اراکین بھی پکار رہے تھے۔
یہ وہی اراکین تھے جو گزشتہ اسمبلی میں سبطین خان کے ساتھی تھے تب لیکن ان کی جماعت تحریک انصاف تھی۔واضح نظر آ رہا تھا کہ سپیکر سبطین خان کے لیے تحریک انصاف کی وابستگی سے منتخب ہونے والے اراکین کو سنی اتحاد کونسل کے اراکین کہنا جذباتی طور پر مشکل لگ رہا ہے۔کارروائی آگے بڑھی تو سپیکر نے کہا کہ ’اجلاس جمعے کی نماز نے لیے پینتالیس منٹ کے لیے موخر کیا جاتا ہے البتہ سنی اتحاد کونسل کی حامیوں کو گیلری تک رسائی اور میاں اسلم اقبال کی مبینہ گرفتاری سے متعلق شکایت کا ازالہ کیا جائے گا۔
وقفے کے دوران اسمبلی احاطے میں حکومتی اور اپوزیشن بینچز پر موجود ارکان آمنے سامنے آئے اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگائے۔ سنی اتحاد کونسل کے اراکین شروع میں کچھ جذباتی ہوئے لیکن تھوڑی دیر میں نعرہ ’کون بچائے گا پاکستان‘ کے جواب میں ’عمران خان‘ کے نام کا زور کم ہو کر یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔پونے تین بجے اجلاس دوبارہ شروع ہوا اور کسی تقریر یا تاخیر کے بغیر حلف کی تقریب منعقد ہو گئی اور اس کے بعد تمام اراکین نے باری باری رجسٹرڈ پر دستخط شروع کیے۔مریم نواز بھی اپنے دستخط کر کے ایوان سے روانہ ہو گئیں۔اسمبلی سیکریٹری نے اعلان کیا کہ کل سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہو گا۔