مذہب کے خلاف جرائم کی دفعات ختم کرنے کا تاثر ” سپریم کورٹ کی وضاحت اور عوامی ردعمل
سوشل میڈیا پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مہم پر عدالت عظمیٰ نے جمعرات کو کہا کہ ’الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں اور ایسا تاثر دیا جارہا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم (مسلمان کی تعریف) سے انحراف کیا ہے۔گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ میں احمدی شخص سے متعلق فیصلے پر چیف جسٹس پاکستان کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے جس میں اشتعال انگیز اور نفرت پر مبنی مواد بھی شامل ہے۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ نے آج ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ غلط رنگ دیتے ہوئے مہم چلائی جا رہی ہے جس میں تاثر دیا گیا کہ ’مذہب کے خلاف جرائم کے متعلق مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ختم کرنے کے لیے کہا ہے۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے مقدمات میں جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور اسلامی احکام بھلا دیے جاتے ہیں۔ فیصلے میں قرآن مجید کی آیات اسی سیاق و سباق میں دی گئی ہیں۔ فیصلے میں غیر مسلموں کی مذہبی آزادی کے متعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی جو دفعات نقل کی گئی ہیں ان میں واضح طور پر یہ قید موجود ہے کہ یہ حقوق ’قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع‘ ہی دستیاب ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ مقدمے میں عدالت نے یہ قرار دیا تھا کہ ایف آئی آر میں مذکورہ الزامات کو جوں کا توں درست تسلیم بھی کیا جائے، تو ان پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا، بلکہ فوجداری ترمیمی ایکٹ 1932 کی دفعہ پانچ کا اطلاق ہوتا ہے جس کے تحت ممنوعہ کتب کی نشر و اشاعت پر زیادہ سے زیادہ 6 ماہ کی قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔چونکہ درخواست گزار/ملزم پہلے ہی قید میں ایک سال سے زائد کا عرصہ گزار چکا تھا، اس لیے اسلامی احکام، آئینی دفعات اور قانون و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے درخواست گزار/ملزم کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا۔‘
اعلامیے میں کہا گیا: ’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی اسلامی اصول یا کسی آئینی یا قانونی شق کی تعبیر میں عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی ہوئی ہے، تو اس کی تصحیح واصلاح اہلِ علم کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں۔ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ نے کسی کو نظرِ ثانی (review) سے نہ پہلے روکا ہے نہ ہی اب روکیں گے۔‘
عدالتی فیصلے پر نفرت انگیز مہم پر حکومت سخت کارروائی کرے گی: حکومت
نگران وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے جمعرات کو کہا کہ حکومت ایسی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کرے گی۔نگران وفاقی وزیر اطلاعات نے بریفنگ میں کہا کہ ’آرٹیکل 19 کے تحت عدلیہ، مسلح افواج اور برادر ممالک کے خلاف تضحیک آمیز گفتگو کی اجازت نہیں ہے۔ کچھ لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو تشدد پر اکسانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، یہ خلاف قانون سرگرمی ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے مزید کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی لامحدود نہیں بلکہ قانون کے تابع ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو جاتے کہ ان کے پلیٹ فارمز کسی بھی ملک کے اندر امن و امان کو خراب کرنے اور لوگوں کو تشدد پر اکسانے اور نفرت انگیزی کے لیے استعمال ہوں۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ٹوئٹر، یو ٹیوب، فیس بک کو پروپیگنڈا، جھوٹ، سرکاری افسران کی کردار کشی اور ہراساں کرنے کے لیے مسلسل استعمال کیا جاتا رہا ہے، متعلقہ کمپنیوں کو اس عمل کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ ’پاکستان کسی بھی صورت اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ یہ پلیٹ فارمز پاکستان میں بے بنیاد جھوٹا اور من گھڑت پروپیگنڈا پھیلائیں، ان پلیٹ فارمز کی طرف سے اس کو نہ روکا گیا تو ریاست کو سخت اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ ’عدلیہ کے کسی بھی فیصلے کے خلاف قانونی نظرثانی کے ذرائع موجود ہیں۔ کسی کو شکایت ہے تو اس کے لیے نظرثانی کی درخواست دی جا سکتی ہے، کسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے اور ملکی امن کو تہہ و بالا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے، ملک میں لاقانونیت اور انتشار کو پھیلنے نہیں دیا جائے گا۔ پاکستان میں رہنے والے تمام غیر ملکیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں اور ان کی سلامتی کو حکومت پاکستان یقینی بنائے گی۔
ابہام دور کر کے انتشار کو روکا جائے: طاہر اشرفی
وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر محمود اشرفی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ’غلط رنگ دینے‘ پر میڈیا بریفنگ میں کہا کہ ’کچھ لوگوں نے عقیدہ ختم نبوت پر سیاست کی، ابہام دور کر کے انتشار پیدا کرنے والوں کو روکا جائے، شر پھیلانے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ قانونی معاملہ ہے۔طاہر اشرفی نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ کے چھ فروری کے فیصلے کے حوالے سے ہمارا وکلا، علمائے کرام اور دیگر فریقین سے رابطہ ہے، عقیدہ ختم نبوت ہر مسلمان کا معاملہ ہے، ہر مسلمان رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے، ہر کلمہ گو عقیدہ ختم نبوت کا محافظ ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دوران سماعت ریمارکس
گذشتہ روز سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ میں احمدی شخص سے متعلق فیصلے پر چیف جسٹس پاکستان کے خلاف مہم چلائی گئی۔آج مارگلہ نیشنل پارک سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’سب سے آخری چیز اللہ نے انسان بنائی اور احسن تقویم کہا، انسان کو خلیفہ فی الارض بنایا گیا ہے۔ ارض میں جانور جنگلات سب کچھ آتا ہے ہم یہ بھول گئے۔ نبی آخر الزماں کو کس نام سے یاد کیا گیا؟ انہیں رحمت للعالمین کہا گیا ہے، کیا صرف مسلمانوں کے لیے؟
’وہ پرندوں کے لیے بھی تمام جہانوں کے لیے بھی ہیں، معراج کی رات کیوں تمام انبیا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی یہ بتائیں؟ کسی اور پیغمبر کو کیوں یہ اعزاز نہ دیا گیا؟ حضرت ابراہیم نے انہیں دعوت دی تھی کہ آپ امامت کرائیں، اس کا مطلب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بات ختم، ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی رہنمائی لینی ہے، ہم مذہبی ریاست ہیں، ہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سرچشمہ ہدایت ہے۔‘
سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا تھا؟
سپریم کورٹ نے چھ فروری کو انگریزی میں فیصلہ جاری کیا تھا لیکن سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد گذشتہ روز اردو میں بھی فیصلہ جاری کیا گیا۔سپریم کورٹ نے معاملے کے قانونی پہلوؤں پہ لکھتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 12(1) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’کسی شخص پہ ایسے جرم کا اطلاق نہیں کِیا جاسکتا جو اُس وقت جرم تھا ہی نہیں جب وہ سرزد کیا گیا تھا۔ چنانچہ جب 2019 میں کسی کالعدم/ متنازع کتاب کا چھاپنا یا اس کی تشہیر کرنا جرم تھا ہی نہیں اس لیے ملزم پہ ایسی فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔‘
تحریری فیصلے کے مطابق ملزم کے وکیل نے مزید کہا کہ ’ملزم پہ 298 سی (خود کو مسلم ظاہر کرکے احمدی نظریات کی تبلیغ کرنا) اور 295 بی (توہینِ قرآن) تعزیرات پاکستان کا بھی اطلاق کِیا گیا ہے جو کہ FIR کے مندرجات اور چالان کے مطابق درست نہیں۔عدالت نے مدعی کے وکیل کو ایف آئی آر پڑھنے کا کہا اور عدالت نے یہ بات نوٹ کی کہ ایف آئی آر اور چالان دونوں میں کوئی ایسی بات موجود نہیں جس سے ملزم پہ مذکورہ دفعات کا اطلاق ہوتا ہو۔ چنانچہ عدالت نے قرار دیا کہ ایڈیشنل سیشن جج نے ملزم پہ جو فردِ جرم عائد کی ہے اس میں سے مذکورہ دفعات خارج کی جاتی ہیں۔‘
عدالت نے مزید کہا ہے کہ ’مذہبی معاملات سے متعلق کیسز دیکھتے ہوئے عدالتوں کو انتہائی احتیاط برتی چاہیے اور اس حوالے سے قرآن پاک کی سورۃ بقرہ کی آیت 256 کا بھی حوالہ دیا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔خود خالقِ کائنات نے نبی پاک سے سورہ رعد آیت 40 اور سورہ یونس آیت 99 میں فرمایا کہ آپ کا کام صرف لوگوں تک پیغام پہنچانا ہے۔ مذہبی آزادی اسلام کا بنیادی نکتہ ہے لیکن بدقسمتی سے مذہبی معاملات میں جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور قرآن کے احکامات بھلا دیے جاتے ہیں۔‘
عدالت نے مزید کہا کہ ’قرآن اہم معاملات پہ تدبر کا حکم دیتا ہے لیکن مقدمہ ہذا کے تمام فریقین نے کوشش کی کہ یہ ثابت کِیا جاسکے کہ قرآن اور صاحبِ قرآن کی توہین ہوئی ہے جبکہ اِن سب کو یاد رکھنا چاہیے تھا کہ قرآن میں خود الله نے قرآن کی حفاظت اپنے اوپر لی ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ ’دین میں جبر نہ ہونے والی بات آئین کے آرٹیکل 20 اے میں بطور بنیادی حق شامل ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ہر شہری کو مذہب اپنانے، عمل کرنے اور اس کی تشہیر/ تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
’جبکہ 80 آرٹیکل کی شق بی کہتی ہے کہ ہر مذہبی اقلیت/ اکائی اور فرقے کو مذہبی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق ہوگا۔ نیز آرٹیکل 22 میں یہ حق دیا گیا ہے کہ کسی بھی مذہبی فرقے کو اپنے فرقے کے طلبا کے لیے قائم کردہ تعلیمی اداروں کے اندر اپنی مذہبی تعلیمات دینے سے نہیں روکا جائے گا۔عدالت نے کہا کہ یہ حقوق سلب نہیں کیے جا سکتے۔
عدالت نے قرار دیا کہ اگر صرف سرکاری افسران ہی نے قرآن پاک، آئین اور متعلقہ قانون مدنظر رکھا ہوتا تو مذکورہ مقدمہ اِن دفعات کے تحت درج ہی نہ ہوتا۔ لہذا اپیل منظور کی جاتی ہے اور دفعہ سات و نو قرآن ایکٹ 2011 اور دفعہ 295 بی اور 295 سی تعزیرات پاکستان کو فرد جرم میں سے حذف کیا جاتا ہے اور ملزم کو ضمانت دی جاتی ہے۔‘
کیس کا پس منظر کیا تھا؟
تحریری فیصلے کے مطابق ’ملزم پہ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ایک متنازع کتاب تفسیرِ صغیر، جس پہ پابندی ہے، کی تقسیم، تشہیر اور تبلیغ کر رہا تھا، جبکہ پنجاب قرآن (پرنٹنگ و ریکارڈنگ) ایکٹ 2021 کے مطابق کسی کالعدم / زیرِ پابندی کتاب کو پھیلانا یا چھاپنا جرم ہے۔
ٹرائل کورٹ نے ملزم پہ دفعہ سات ونو قرآن ایکٹ 2011 اور دفعہ 295 بی و 295 سی تعزیرات پاکستان کے تحت فردِ جرم عائد کی، جس فرد جرم کے خلاف ملزم نے ہائی کورٹ میں فوجداری نگرانی دائر کی جو مسترد کر دی گئی۔ اس کے خلاف ملزم نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ملًزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ مذکورہ قانون 2021 میں لاگو ہوا جبکہ ملزم کے جس مبینہ عمل پہ مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ 2019 کا ہے لہذا قانون کا اطلاق ماضی سے نہیں ہو سکتا۔