"عمران ریاض کو چیف جسٹس پاکستان کے خلاف منافرت پھیلانے پر گرفتار کرلیا گیا”

admin-ajax-removebg-preview.jpg

تجزیہ نگار :- محمد عامر حسینی

 

"عمران ریاض کو چیف جسٹس پاکستان کے خلاف منافرت پھیلانے پر گرفتار کرلیا گیا”اس خبر پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر میری فرینڈ لسٹ میں شامل کئی ایک آئی ڈیز (جن میں کئی ایک ادب و صحافت کے چمکتے ستارے اور شہرت کے بام عروج پر ہیں) نے اسے ” آزادی اظہار” ، "آزادی صحافت” پر حملہ قرار دیا ہے -اس واقعے پر کچھ کو لگتا ہے کہ پاکستان میں رہ کر آزاد صحافت کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوگیا ہے – آزاد صحافت ، آزادی اظہار، سچائی کی پاسداری ، وقت کا منصور حلاج ہونے، کار زینبی کے معانی بھی آج کل انتہائی تنگ دائرے میں قید کردیے گئے ہیں ان سب کا ایک بہت بڑا پیمانہ تو آپ کا تحریک انصاف کے حامی یا ان کا مخالف ہونا بن گیا ہے”

کیا ریاستی حکام یا ادارے ہر ایک مذھبی/نسلی منافرت پھیلانے والے کے خلاف فوری حرکت میں آتے ہیں؟ کیا اس حوالے سے قوانین کا اطلاق شفاف ، بلا امتیاز اور یکساں ہے؟

پاکستان میں ریاستی انتظامیہ مذھبی و نسلی بنیادوں پر منافرت پھیلانے اور نفرت انگیز تحریر و تقریر سے کسی مذھبی و نسلی برادری کے جذبات مجروح کرنے والوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کرنے کی ‘مثالی روایت’ تو کبھی قائم ہی نہیں کرسکی -اس ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اکثر و بیشتر قانون کا نفاذ امتیازی بنیادوں پر کیا ہے –

ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب ہمارے ملک میں عام انتخابات کا دور دورہ تھا تب اس ملک میں ایک طرف تو نام بدل کر کالعدم تنظیموں اور ان کی قیادت کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی اور ان تنظیموں نے نہ صرف انتخابی جلسوں اور ریلیوں میں مذھبی منافرت پر مبنی تقریریں کیں بلکہ ان کی مذھبی منافرت کا نشانہ جو فرقہ اور مذھبی کمیونٹی تھی ان کے خلاف عوام کو تشدد کرنے پر بھی اکسایا- دوسرا ان انتخابات میں ایسے گروہ بھی اپنی جماعت بناکر انتخابات لڑ رہے تھے جن کا انتخابی ایجنڈا بھی نام بدل کر انتخاب لڑنے والی کالعدم تنظیموں جیسا ہی تھا-

الیکشن کمیشن پاکستان نے رجسٹریشن کے لیے پارٹی کے اندر صاف شفاف انتخابات ،مالیاتی شفافیت اور ملک کے آئین و قوانین کی پاسداری کے حوالے سے جو شرائط تھیں( جن میں سے ایک شرط مذھبی و نسلی منافرت، عسکریت پسندی میں ملوث نہ ہونا بھی ہے) ان کی سخت ترین پاسداری کا تقاضا صرف اور صرف اس ‘جماعت’ سے کیا جس کے بارے میں سب کو پتا تھا کہ پاکستان کی غیر منتخب ھئیت مقتدرہ کے سب سے طاقتور عہدے دار اسے کسی صورت ‘لیول پلئینگ فیلڈ’ نہیں دیں گے- اس کے برعکس اس ہی الیکشن کمیشن پاکستان نے جتنی بھی سیاسی جماعتوں کو رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ دیا اور انھیں انتخابی نشان دیے وہ سب کے سب الا ماشاء اللہ وہ ہیں جن کے اندر پارٹی انتخابات، مالی شفافیت نہیں ہے –

اگر الیکشن کمیشن انتخابی قواعد و ضوابط پر یکساں اور بلا امتیاز عمل درآمد کرنے پر تیار ہوتا تو کیا کالعدم جماعت دعوہ پاکستان، کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان جیسی جماعتیں نام بدل کر "تحریک اللہ اکبر” اور ” راہ حق پاکستان پارٹی ” بطور سیاسی جماعت کے رجسٹرڈ ہوسکتی تھیں؟

اگر الیکشن کمیشن پاکستان مذھبی منافرت پھیلانے والی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو الیکشن لڑنے کے لیے نا اہل قرار دینے والے قانون پر بلا امتیاز عمل در آمد کرانے والا ہوتا تو کیا مولانا فضل الرحمان اور اس کی جماعت کے کے دیگر امیدواروں اور پیروکاروں کو "یہودی ایجنٹ، اسلام دشمن ” قرار دینے پر انتخاب لڑنے سے نا اہل قرار نہ دیتا ؟ کیا وہ مولانا فضل الرحمان سمیت ہر اس انتخابی امیدوار کے خلاف کاروائی نہ کرتا جو کسی بھی صورت میں کسی گروہ کے لیے "دہشت گردی” اور "عسکریت پسندی” کا جواز پیش کرتے ہوں- جیسے تحریک طالبان افغانستان کی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو اسلام اور جہاد قرار دینا-

ابھی چند دن پہلے جب پاکستان تحریک انصاف نے اپنے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو شیعہ مسلمان فرقے کی ایک مذھبی سیاسی جماعت مجلس و حدت المسلمین میں شامل کرنے کا عندیہ دیا تو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ پاکستان راہ حق پارٹی نے اپنی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا اور اس اجلاس کے بعد اس جماعت کے عہدے دار علامہ عطاء اللہ دیشانی نے جو پریس کانفرنس کی جو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی میں اعلانیہ مذھبی منافرت ، فرقہ واریت اور بلاسفیمی و ارتداد جیسے قابل مذمت اور غیرقانونی ہتھیاروں کا استعمال کیا جس کا نشانہ شیعہ مسلمان تھے –

پاکستان راہ حق پارٹی کی طرف سے انتخابی مہم کے دوران بھی شیعہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز ، مذھبی منافرت پر مبنی تقاریر اور پروپیگنڈا کیا جاتا رہا – اور تو اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے اس پارٹی کے ساتھ نہ صرف سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بلکہ اس نے شیعہ مسلمانوں کے خلاف ریلجس پرسیکوشن/ مذھبی تعذیب اور نسل کشی مہم /جینوسائیڈل کمپئن چلانے والی جماعت سپاہ صحابہ پاکستان / اہل سنت والجماعت کے صف اول کے رہنماؤں کو پارٹی ٹکٹ بھی دیے –

آج جو صحافی ، تجزیہ نگار، سماجی و سیاسی ایکٹوسٹ پاکستان تحریک انصاف پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کے خلاف بلاسفیمی کارڈ استعمال کرنے اور ایک مذھبی گروہ کے خلاف مذھبی منافرت پھیلانے کا الزام لگا رہے ہیں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے راہ حق پارٹی/سپاہ صحابہ پاکستان /اہل سنت والجماعت کے ساتھ انتخابی الائنس بنانے اور مذھبی منافرت کے علمبرداروں کو پارٹی ٹکٹ دیے جانے پر ایسا الزام مسلم لیگ نواز اور اس کی قیادت کو کیوں نہ دیا؟

یہی سوال پی ٹی آئی کے کیمپ سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ وہ مذھبی منافرت، اشتعال ، بلاسفیمی کارڈ اور ارتداد جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنے والے صحافی، بلاگرز، اینکرز جن میں عمران ریاض بھی شامل ہے کی سرپرستی اور دفاع کرنے میں کیوں مصروف ہے؟

کسی بھی مذھبی و نسلی گروہ یا برادری کی ریاستی یا سماجی سطح پر مذھبی و نسلی تہذیبReligious / Ethnic Persecution اس کے خلاف نسل کشی کی مہم Genocidal campaign قابل مذمت اور ناقابل قبول ہونا بلا امتیاز نظر آنا چاہیے اس ملک میں اس سے بڑھ کر ستم ظریفی کیا ہوسکتی ہے کہ سماجی اور ریاستی سطح پر نفرت انگیز تقریر و تعذیب و نسل کشی مہم Hate Speech” "Genocidal Campaign” Religious persecution کا شکار ایک فرقہ کے بہت سارے لوگ سوشل میڈیا پر دوسری مذھبی اقلیتوں اور گروہوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھے جانے کی تائید کریں اور خود بھی ایسا کریں-پاکستان میں مذھبی و نسلی رواداری پر بلا امتیاز عمل کرنا ، نسلی و لسانی و فرقہ وارانہ منافرت و تعصبات کو یکساں رد کرنے کو عمل و قول دونوں سے ثابت کرنا اور ریاست پاکستان کا اس حوالے سے موجود قوانین و ضوابط کا بلا امتیاز اطلاق اور کاروائی کرنا دونوں مفقود ہیں

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے