منتخب ایوانوں میں سنی اتحاد کونسل یا پی ٹی آئی کی چلے گی؟

343646-1307784312.jpg

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت سے جیتنے والے آزاد اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے پارٹی قیادت کے فیصلے پر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے بلے کا انتخابی نشان واپس لیے جانے پر پی ٹی آئی کی پارلیمانی شناخت معطل ہے۔ لہذا پارٹی قیادت نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے سنی اتحاد کونسل کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا خان کی جانب سے الیکشن کمیشن کو درخواست بھی دی گئی ہے کہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے سو سے زائد ممبران قومی اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی ہے۔ان میں سے جن 50 ممبران کی کامیابی کا نوٹیفکیشن ہوچکا ہے ان کی حلف ناموں کے ساتھ فہرست بھی جمع کرا دی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن سے استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن رولز 2017 کی شق 92(6) کے تحت اراکین کی تعداد کے تناسب سے خواتین کی مخصوص نشستیں اور اقلیتی نشستیں فراہم کی جائیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کی سنی اتحاد کونسل کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی وجہ ایوانوں میں بطور پارٹی وجود برقرار رکھنا اور مخصوص نشستوں کا حصول ہے۔

پی ٹی آئی رہنما احمد اویس کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کی فہرست اور درخواست انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرائی۔انہوں نے اس حوالے سے کہا کہ ’لہذا ہمیں الیکشن کمیشن سے یہ نشستیں ملنے کی توقع نہیں ہم عدالت سے رجوع کریں گے۔‘

اتحاد سے مخصوص نشستیں مل پائیں گی؟

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے نمائندہ بصیر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن رولز کی شق 104 کے مطابق ہر سیاسی جماعت کو انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شیڈول کے دوران مخصوص اور اقلیتی نشستوں پر امیدواروں کے ناموں کے فہرست جمع کرانا لازمی ہوتی ہے۔

’اگر کوئی سیاسی جماعت کم امیدواروں کی لسٹ جمع کرائے اور ان کے جنرل نشستوں پر امیدوار زیادہ کامیاب ہوجائیں تو فہرست میں مزید ناموں کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگر سرے سے لسٹ ہی جمع نہ کرائی گئی ہو تو الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں کہ الیکشن کے بعد فہرست لے کر مخصوص یا اقلیتی نشستیں فراہم کر سکے۔‘

کنور دلشاد کے بقول، ’اس صورت حال میں اگر کوئی سیاسی جماعت ہائی کورٹ سے رجوع کر لے تو عدالت کا اختیار ہے کہ وہ قانونی راستہ نکال کر کسی بھی پارٹی سے مخصوص نشستوں کی لسٹ وصول کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔‘

تحریک انصاف کے رہنما سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے نمائندہ بصیر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی نے الیکشن سے قبل مخصوص نشستوں کے لیے فہرستیں جمع کرائی تھیں۔ لیکن جب انتخابی نشان واپس لیا گیا تو ہماری وہ فہرست غیر موثر ہوگئی۔ اب ہم نے سنی اتحاد کونسل میں اپنے آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کی شمولیت کرائی ہے۔‘

احمد اویس کے بقول، ’سنی تحریک میں شمولیت کا مقصد ایک تو مخصوص اور اقلیتی نشستیں حاصل کرنا ہے۔ جو وفاق، پنجاب، کے پی اور دیگر اسمبلیوں میں ہمارا حق ہے۔ لیکن سنی اتحاد کونسل نے الیکشن سے پہلے کوئی فہرست چونکہ الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرائی۔ اس لیے ہمیں الیکشن کمیشن سے تو کوئی امید نہیں کہ وہ ہماری مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ہمارا حق دے۔ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر الیکشن کمشین ہمیں مخصوص یا اقلیتی نشستیں نہیں دیتا تو ہم عدالت سے رجوع کریں گے۔ البتہ ہم نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں ان نشستوں کے حصول کے لیے درخواستیں ضرور جمع کر دی ہیں۔‘

مذہبی جماعت سے اتحاد کے سیاسی اثرات

سینیئر صحافی و تجزیہ کار ندیم رضا نے نمائندہ بصیر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی نے پہلے مجلس واحدت مسلمین اب سنی اتحاد کونسل میں اپنے آزاد جیتنے والے اراکین کو شامل کرنے کا فیصلہ کر کے سیاسی طور پر اپنی ساکھ خراب کی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک مسلسل کم ہورہا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ لوگوں میں مذہبی رحجان موجود ہے لیکن مذہب کے نام پر سیاست کو پسند نہیں کرتے۔‘

ان کے خیال میں ’سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا ہیں اور اب ایوانوں میں پی ٹی آئی اراکین ان کی ہدایات پر چلنے کے پابند ہوں گے۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اب تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی لائن اراکین اسمبلی اس طرح فالو کرنے کے پابند نہیں ہوں گے جیسے پہلے تھے۔‘

ندیم رضا کے مطابق ’تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل کو اپنی شناخت بنا کر یہ تاثر دے دیا ہے کہ اب پارلیمان میں ان کی شناخت موجود نہیں رہے گی۔ دوسری جانب ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو سیاسی مفادات تبدیل ہوتے رہتے ہیں جو پی ٹی آئی نے مقتدر حلقوں سے بگاڑ لی ہے اس میں سنی اتحاد کونسل ساتھ نہیں دے گی۔ کیونکہ مجلس واحدت مسلمین ہو یا سنی اتحاد کونسل یہ ہمیشہ مقتدر حلقوں کے قریب رہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس اتحاد میں سب سے زیادہ فائدہ سنی اتحاد کونسل کو ہوگا ان کی اپنی صرف ایک نشست تھی اب وہ پارلیمان کی بڑی جماعت بن جائے گی۔ البتہ یہ بھی اہم ہوگا کہ پی ٹی آئی کس طرح اپنی سیاسی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے ایوانوں میں کردار ادا کرے گی۔ کس طرح اپنے بیانیے پر قائم رہے گی۔‘

تجزیہ کار وجاہت مسعود نے نمائندہ بصیر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’بھٹو دور کے بعد سے ہی جمہوری سیاسی جماعتوں میں بھی مذہبی سیاسی جماعتوں کے لوگ شامل کیے گئے۔ اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی )، مسلم لیگ ہو یا پی ٹی آئی ان جماعتوں میں مذہبی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد رہی ہے۔ جہاں تک مذہبی جماعتوں سے اتحاد کی بات ہے تو وہ بھی ہر دور میں بڑی جماعتوں کی اتحادی رہی ہیں۔ البتہ جس طرح تحریک انصاف کے آزاد اراکین کو بڑی تعداد میں سنی تحریک جیسی مذہبی شناخت رکھنے والی جماعت میں شامل کر دیا گیا ہے ایسی مثال کم ہی ملتی ہے۔‘

وجاہت کے بقول، ’اس بات سے تحریک انصاف کی قیادت یا کارکنوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سنی تحریک سے ایوانوں میں شناخت تبدیل ہوجائے کیونکہ ان میں پہلے ہی مذہبی ٹچ موجود ہے۔ البتہ قومی دھارے یا عالمی سطح پر بہت فرق پڑتا ہے شاید اسی وجہ سے ایم ڈبلیو ایم سے اتحاد کی بجائے سنی تحریک سے کیا گیا ہے۔‘

ان کے خیال میں، ’جس طرح تحریک انصاف سے پہلے لوگ نکل گئے اب بھی کوئی سیاسی فائدہ نہ ملنے کی صورت میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ آنے والے دنوں میں ایوانوں کے اندر سربراہ سنی تحریک حامد رضا کی پالیسی چلے گی یا بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی بات مانی جائے گی۔‘

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے