مخلوط حکومت کا سب سے پہلا چیلنج عمران خان ہوں گے
مخلوط حکومت بن تو جائے گی، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ چل بھی پائے گی؟ نئی حکومت کے سامنے پہلا بڑا چیلنج عمران خان ہوں گے۔ کیا یہ حکومت اس چیلنج سے نمٹ پائے گی؟راستے دو ہی ہیں۔ ایک یہ کہ عمران خان کو غیر متعلق اور بےاثر کر دیا جائے اور دوسرا یہ کہ انہیں انگیج کرتے ہوئے شراکتِ اقتدار پر آمادہ کیا جائے۔ مخلوط حکومت میں کیا یہ سکت ہو گی کہ وہ ان دونوں بھاری پتھروں میں سے کسی ایک کو اٹھا سکے؟
عمران خان کو غیر متعلق اور بے اثر کرنے کے لیے قانونی، انتظامی اور سیاسی سطح پر جو کچھ کیا جا سکتا تھا، کر لیا گیا ہے اور جی بھر کر کر لیا گیا ہے، لیکن وہ غیر متعلق ہوئے، نہ بے اثر۔ ان کی مقبولیت کا گراف پہلے سے بڑھ چکا ہے اور ان کے سامنے اس وقت کسی سیاسی حریف کا چراغ نہیں جل پا رہا۔
انہیں بےاثر کرنے کی اب ایک ہی صورت باقی ہے اور وہ یہ کہ نئی حکومت معاشی اور انتظامی سطح پر ایسی غیر معمولی اور مثالی کارکردگی دکھائے جس سے عوام اتنے خوش ہو جائیں کہ عمران خان کو بھول جائیں، لیکن کیا ان حالات میں ایسی کارکردگی دکھانا ممکن ہو گا؟ زمینی حقائق اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔
فی الوقت معاشی صورت حال میں کسی بڑی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ مہنگائی بڑھے گی اور اتحادی حکومت ایک بار پھر یہی بیانیہ لے کر آئے گی کہ ملک کی خاطر وہ مشکل فیصلے لینے پر مجبور ہے۔ یہ مشکل فیصلے ہم ماضی قریب میں پی ڈی ایم کی حکومت میں دیکھ چکے ہیں۔ ایسے مزید فیصلے لیے گئے تو اتحادی حکومت رہی سہی ساکھ بھی داؤ پر لگا دے گی۔
اس صورت حال میں عمران خان ایک زیادہ بڑا چیلنج بن کر سامنے آئیں گے۔ اپوزیشن کا کام ہی صرف باتیں کرنا ہوتا ہے اور اس کام میں جو مہارت تحریک انصاف کو ہے وہ کسی کو نہیں۔ وہ اپنی ریت کے ڈھیر کو تاج محل قرار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، حکومت کی کمزوریوں پر تو وہ ایسے ایسے رجز پڑھے گی کہ آپ جاہلیت کے شاعروں کو بھول جائیں گے۔
انتظامی قوت بھی استعمال کر لی۔ قانون نافذ کر کے بھی دیکھ لیا۔ سیاسی داؤ پیچ بھی عمران کی مقبولیت ختم نہ کر سکے۔ ایسے میں اتحادی حکومت اگر عوام کو معاشی ریلیف نہ دے سکی تو عمران خان کا سونامی اسے سماجی اور سیاسی سطح پر بہا لے جائے گا۔ پھر یہ حکومت ایک پیج پر ہو یا پورے دیوان پر یہ صرف کاغذ کا پھول ہو گی۔
اتحادیوں کو اپنی جمع تقسیم ابھی سے کر لینا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ ایک ڈیرھ سال بعد سانجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹی پڑی ہو اور مولانا فضل الرحمٰن جیسا کوئی رہنما شدتِ ناراضی میں مزید انکشافات و الزامات پر اتر آئے۔ سیانے کہا کرتے ہیں کہ اجتماعی خود کشی کے لیے اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم نے اسی وارفتگی کے ساتھ اقتدار سنبھالا تھا کہ خزاں کو جانا چاہیے بہار آئے نہ آئے، لیکن جب اس اقتدار کے نتائج انتخابات میں سامنے آئے تو پھر انکشافات اورالزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ ہم تو نہ عدم اعتماد کے حق میں تھے نہ حصول اقتدار کے۔ ہم سادہ لوحوں کو تو مجبور کر دیا گیا تھا اور وفورِ عشق میں ہم انکار نہ کر سکے۔
اگر گڈگورننس کی کوئی منصوبہ بندی ہمراہ ہے تو چشم ماہ روشن، لیکن اگر ہوائی قلعے تعمیر کرنے کا ارادہ ہے اورکل کو پھر یہی بہانے بنانے ہیں تو ابھی وقت ہے پاندان اٹھا لیجیے۔
ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور عمران خان کو بے اثر یا انگیج کیے بغیر سیاسی استحکام ممکن نہیں۔ آپ اسے ہیجان کہیں یا انتشار، یہ موجود رہے گا۔ لوگ ناراض ہیں۔ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ انتخابی مینڈیٹ منقسم اور ادھورا ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ مینڈیٹ نامعتبر ہو چکا ہے۔ مینڈیٹ معتبر ہوتا تو مخلوط حکومت میں بھی کوئی مضائقہ نہ تھا لیکن اہلِ سیاست کی بڑی تعداد اس انتخابی عمل پر عدم اعتماد کر چکی ہے۔ ریت کا یہ محل کب تک باقی رہ پائے گا؟
زیادہ قابلِ عمل حل یہ ہے کہ عمران خان کو انگیج کیا جائے۔ اس پر غور کیا جائے کہ شراکتِ اقتدار کی کیا صورت نکل سکتی ہے۔ قومی حکومت یا کچھ اور۔ شراکت اقتدار کے بہت سارے امکانات موجود ہیں جن پر غور کیا جانا چاہیے۔ کم از کم ہدف یہ ہو کہ ایک متفقہ میثاقِ معیشت لایا جائے جس کی پشت پر سیاسی استحکام کی ضمانت نہ بھی ہو تو یہ ضمانت ضرور ہو کہ حکومت کسی کی بھی ہو آئندہ 10 سے 15 یا 20 سال کے لیے ریاست کی معاشی پالیسی کی مبادیات یہ ہوں گی۔
گر یہ نہیں تو بابا، باقی کہانیاں ہیں۔