غزہ کے ہولوکاسٹ سے موازنے پر برازیل، اسرائیل سفارتی تنازع

343716-1048039733.jpg

برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا ڈی سلوا کی جانب سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا ہولوکاسٹ سے موازنہ کرنے پر دونوں ممالک کے درمیان انتہائی سنگین سفارتی تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق برازیل نے پیر کو اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور اسرائیل نے لولا ڈی سلوا کو ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دے دیا ہے۔

اس تناؤ کا آغاز اس وقت ہوا جب لولا ڈی سلوا نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں جاری جارحیت ’جنگ نہیں نسل کشی ہے،‘ ساتھ ہی انہوں نے اس کا موازنہ ’اس وقت سے کیا جب ہٹلر نے یہودیوں کو مارنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے بقول لولا ڈی سلوا نے ’سرخ لکیر پار کر لی ہے‘ اور وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ لولا ڈی سلوا ’ریاست اسرائیل میں اس وقت تک ناپسندیدہ شخصیت ہیں جب تک کہ وہ اپنے بیان سے پیچھے نہیں ہٹتے اور معافی نہیں مانگتے۔‘

کاٹز نے برازیل کے سفیر فریڈریکو میئر کو پیر کو مقبوضہ بیت المقدس میں یاد واشم ہولوکاسٹ میموریل سینٹر میں ملاقات کے لیے طلب کیا تھا۔برازیل کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے اسی روز برازیل میں اسرائیلی سفیر ڈینیئل زونشین کو بھی ملاقات کے لیے طلب کیا تھا اور اسی دن شام کو فریڈریکو میئر کو مشاورت کے لیے تل ابیب سے واپس بلا لیا تھا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق برازیل کے وزیر خارجہ ماؤرو ویرا اور زونشین کے درمیان اس وقت ’سخت لیکن مناسب‘ بات چیت ہوئی، جب ویرا نے مقبوضہ بیت المقدس میں میئر اور لولا ڈی سلوا کے ساتھ سلوک پر ’عدم اطمینان‘ کا اظہار کیا۔ذرائع نے مزید بتایا کہ اس میں فریڈریکو میئر کو عبرانی زبان میں ’بغیر کسی مترجم کے، یہ جانے بغیر کہ کیا کہا جا رہا ہے‘ ایک بیان سننے پر مجبور کیا گیا۔

تجربہ کار 78 سالہ لولا ڈی سلوا گلوبل ساؤتھ کی ایک نمایاں آواز ہیں اور ان کا ملک اس وقت جی 20 ممالک کا صدر ہے۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برازیل بدھ اور جمعرات کو جی 20 وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی کی تیاری کر رہا ہے۔ریو ڈی جنیرو میں ہونے والے اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف سمیت اعلیٰ سفارت کار شریک ہوں گے، جہاں غزہ پر اسرائیلی جارحیت ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔

یہ جارحیت سات اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے ایک غیر معمولی حملہ کیا جس میں اسرائیلی حکومت کے مطابق جنوبی اسرائیل میں تقریبا 1160 افراد مارے گئے۔ اس دوران حماس نے تقریباً 250 افراد کو قیدی بھی بنایا، جن میں سے 130 غزہ میں موجود ہیں بشمول ان 30 کے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت میں مارے گئے ہیں۔سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیل کی غزہ پر جارحیت جاری ہے، جس میں کم از کم 29 ہزار سے زائد فراد جان سے جا چکے ہیں اور ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے